پاکستان میں زراعت کا زوال اور کسان کی بے بسی


پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں کا کسان محنتی اور زمین سے محبت کرنے والا ہے۔ انگریزوں نے اس خطہ کا پوٹینشل دیکھتے ہوئے یہاں ایک شاندار نہری نظام کی بنیاد رکھی اور پنجاب ایک اناج گھر کے طور پر ابھرا۔ بے آب و گیاہ زمینوں کو آباد کیا گیا اور کئی نئے شہر بسائے گئے جن میں منٹگمری، لائلپور اور سرگودھا قابل ذکر ہیں۔ یہاں پہ پیدا ہونے والی گندم سے دونوں عظیم جنگوں میں انگریزوں نے استفادہ کیا اور یہاں پر پیدا ہونے والی کپاس سے برطانیہ میں انڈسٹری چلائی گئی۔

یہاں کے زمینداروں نے قیام پاکستان سے پہلے کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ متحدہ پنجاب میں یونینسٹ حکومت زمینداروں کے حقوق کی چیمپئن بن کر ابھری۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سر چھوٹو رام نے کسانوں کی بنیے کے پاس رہن شدہ زمینوں کو واگزار کرانے کے لئے اہم ترین قانون سازی کروائی اور وہ آج بھی کسانوں کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی بیراج ڈیم اور نہریں بنا کر زراعت کو ترقی دی گئی۔ زراعت سے وابستہ صنعت کاری کو فروغ ہوا اور مختلف زرعی اصلاحات کے ذریعے بڑی زمیندار یاں توڑ کر مزار عین کو زمینوں کا مالک بنایا گیا۔

جوں جوں حکومتوں میں پرانے زراعت سے وابستہ افراد کا اثر و رسوخ ختم ہوتا گیا اور نو دولتیے سرمایہ دار عروج حاصل کرتے گئے زراعت کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ کسان کو اپنی محنت کا پھل ملنے کا سلسلہ ختم ہوا تو کسان بھی بددل ہو گیا جس کی وجہ سے پراگریسو زراعت پھل پھول نہیں پائی۔ ہمارا کسان دنیا بھر میں فی ایکڑ پیداوار حاصل کرنے میں اس وقت بہت پیچھے ہے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حکومت ایسے بیج نہیں بنا سکی جو بدلتے موسموں میں بھی زیادہ پیداوار دیں اور مختلف بیماریوں کا مقابلہ کر سکیں۔

اب زراعت منافع بخش پیشہ نہیں رہ گیا، کسان کی حالت زار وقت کے ساتھ ساتھ بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ کسانوں کے بچے با امر مجبوری صنعتی مزدور بنتے جا رہے ہیں۔ دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت شروع ہے، جو شہروں کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کسانوں کی قوت خرید ختم ہونے سے شہروں کی گرمیٔ بازار بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ اب کسان کے مسائل حل کرنے کو کوئی سر چھوٹو رام دستیاب نہیں۔ اس لحاظ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کسان کے لئے کچھ بہتر ثابت ہوئی جب یوسف رضا گیلانی کے دور میں گندم کی بہت مناسب قیمت مقرر ہوئی اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ پی پی میں موجود سیاستدانوں میں ایک قابل ذکر تعداد زراعت سے وابستہ تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی پی نے 2008 میں گندم کی فی من قیمت چودہ سو روپے مقرر کی اور اب بارہ سال بعد گندم کی فی من قیمت 1500 روپے ہے جب کے اس کے مقابلے میں کھاد تیل اور بجلی کی قیمتیں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں اور گندم کی فصل اب منافع بخش نہیں رہ گئی۔ تاہم کسان اپنے گھر دانے رکھنے کی ماضی کی روایت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح گندم کا بھوسہ مویشیوں کیے چارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن جس پر تاجروں اور صنعت کاروں کا غلبہ ہے اس نے زراعت کے ساتھ ہمیشہ سوتیلے پن والا سلوک کیا، اس حوالے سے اسحاق ڈار کسانوں میں بہت ناپسندیدہ شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ تاہم اپنے اقتدار کے آخری دو سال میں الیکشن کے نزدیک ن لیگ نے دیہاتوں میں اپنی غیر مقبولیت کو محسوس کرتے ہوئے کسان کو خوش کرنے کے لئے ایک بڑے زرعی پیکج کا اعلان کیا۔ اس میں کسان کو سستی زرعی مشینری مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت کے لئے استعمال ہونے والی بجلی کے ریٹ کو پانچ روپے فی یونٹ فکس کیا گیا۔

دیہات میں رہنے والوں نے اس دفعہ بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اپنی سیاسی جنگ لڑتی پی ٹی آئی کا انتخاب کیا۔ کسانوں میں یہ تاثر تھا کہ ن لیگ تاجروں کی جماعت ہے تو پی ٹی آئی کو اپنا لیا گیا اور عمران خان سے بہت سی توقعات باندھ لی گئیں مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

آج حالت یہ ہے کہ کسان پے در پے مصیبتوں اور آفتوں سے نیم جان پڑا ہے۔ زراعت مکمل تباہی کے راستے پر ہے پنجاب کے زرخیز میدانوں میں ٹڈی دل کا راج ہے۔ ڈی دل جانوروں کا چارہ بھی کھاتا جا رہا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ نے سپریم کورٹ میں جا کر اس کو ختم کرنے کے سوال پر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ بے وقت کی بارشوں اور ژالہ باریوں سے فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم رہی اور پھر گورنمنٹ نے اپنے گودام بھرنے کے لئے کسانوں کو سرکاری ریٹس پر گندم بیچنے پر مجبور کیا اور جب کسانوں کے پاس سے گندم چلی گئی تو اس کے ریٹس یک دم ہوا سے باتیں کرنے لگے۔

کیا کسانوں کی ژالہ باری سے تباہ شدہ فصلوں پر کوئی ریلیف دیا گیا؟ بالکل نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں تو کسان بالکل بے سہارا بن چکا ہے۔ نہروں کی بندش کی صورت میں نہری علاقوں میں اور وسیع بارانی علاقوں میں ٹیوب ویل بجلی سے چلائے جاتے ہیں۔ زرعی بجلی کی فی یونٹ قیمت جو نواز شریف نے پانچ روپے مقرر کی تھی اب اس وقت مختلف ٹیکسز لگا کر دوگنا کر دی گئی ہے۔ کسانوں کو اس حکومت نے گیلانی اور نواز شریف یاد کروا دیے ہیں۔

عمران خان کے ارد گرد با اثر وزیروں اور مشیروں میں کوئی بھی ایسا نہیں جسے زراعت سے ہمدردی ہو۔ ان میں سے کچھ باہر کے ملکوں سے وارد ہوئے ہیں اور باقی مختلف کاروباری و صنعتی شعبوں کے نمائندے ہیں۔ بجلی پر کوارٹرلی ایڈجسٹ منٹ ٹیکسز کے خلاف جب تاجروں اور کارخانہ داروں نے احتجاج کیا اور لابنگ کی تو ان کے لئے یہ ٹیکسز ختم کر دیے گئے لیکن زرعی بجلی پر یہ ظالمانہ ٹیکسز ابھی بھی کسان ادا کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ احتجاج کی سکت ہے اور نہ لابنگ کے لئے درکار سرمایہ۔ تاہم پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ آنے والے الیکشن میں شہروں میں تو اسے نواز لیگ کو پچھاڑنا مشکل تر ہو گا لیکن دیہاتوں میں وہ کسان کے پاس جا کر اپنا کون سا کارنامہ بیان کریں گے اور شاید وہاں پیپلز پارٹی کو ہرانا مشکل ترین ہو گا۔ جس نے کسانوں کے پیدا کردہ غلہ کی ان کو بہترین رقم دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments