چین میں آٹھ سال – تیسری قسط


پیپلز ڈیلی سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار تھا۔ ہم غیر ملکیوں کے لئے انگریزی میں شائع ہونے والا چائنا ڈیلی اخبار ایک نعمت سے کم نہیں تھا کیونکہ۔ ”زبان یار من چینی و من چینی نمی دانم“ والا معاملہ تھا۔ آٹھ سال تک ہم نے ”جنگ“ اور۔ ”اخبار جہاں“ میں جو ہفتہ وار مکتوب چین ’اور مکتوب بیجنگ‘ باقاعدگی سے لکھا جس پر چینی حکومت نے ہمیں ’تمغۂ دوستی‘ سے بھی نوازا، اس میں ہمیں اس اخبار سے بہت مدد ملتی تھی۔

اپنے منہ میاں مٹھو بننا معیوب بات ہے لیکن 1985۔ 1993 کے اخبار بین آپ کو بہتر بتا سکتے ہیں۔ بیجنگ میں جب کوئی ریڈیو یا اشاعت گھر کی اردو داں چینی ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے آتی تھی تو چینی دوست ہمیں بتاتے تھے کہ وہ پاکستان کے جس شہر میں بھی جاتے تھے، لوگ ان سے ہمارے کالم کے بارے میں ضرور بات کرتے تھے۔ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کے لوگ بھی ہمیں بتاتے تھے کہ جب بھی وہ کسی پاکستانی وفد کو ریسیو کرنے ائر پورٹ جاتے ہیں تو مہمانوں کا پہلا سوال ہمارے کالم کے حوالے سے ہوتا تھا۔

جیسا کہ ہم نے کہا وہ نت نئی تبدیلیوں کا دور تھا۔ سالوں بند دروازوں کے پیچھے رہنے کے بعد دینگ سیاؤ پنگ کی قیادت میں ’کھلے دروازے‘ کی پالیسی پر عملدرآمد شروع ہو چکا تھا۔ پیسا کمانے پر زور دیا جا رہا تھا۔ نائٹ کلبز اور کوک کلچر متعارف ہو رہا تھا۔ ابھی چینی لوگ غیر ملکیوں کو دیکھنے کے اتنے زیادہ عادی نہیں ہوئے تھے اس لئے جہاں کوئی غیر ملکی نظر آتا تھا ”وائیکو رین“ یعنی غیر ملکی شخص کہتے ہوئے اس کے گرد چینیوں کا مجمع لگ جاتا تھا۔ ہر کوئی خاص طور پر نوجوان انگریزی سیکھنے کے لئے بے تاب تھے اور غیر ملکیوں سے انگریزی میں بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔

چینی عوام اور غیر ملکیوں کے لئے چینی حکومت نے دو الگ الگ نظام بنائے ہوئے تھے۔ بعد میں جب ہانگ کانگ کے انضمام کا معاملہ پیش آیا تو بھی ’ایک ملک۔ دو نظام‘ کی پالیسی اپنائی گئی۔ خیر اس کا ذکر پھر کبھی۔ چینیوں کی کرنسی یو آن تھی۔ اور غیر ملکیوں کی کرنسی کا نام ’وائے خوئے‘ یا Foreign exchange certifiates تھا۔ عام چینیوں کے لئے وائے خوئے کی یو آن کے مقابلے میں وہی اہمیت تھی جو ہمارے لئے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی ہے۔ مختلف اشیا، سروسز اور تفریحی اور تاریخی مقامات کے ٹکٹوں کی قیمت غیر ملکیوں کے لئے الگ اور چینیوں کے لئے الگ ہوتی تھی۔

عام چینی جب ہم سے پوچھتے کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے اور جب ہم جواب میں پاکستان کہتے تو وہ خوش ہو کر اپنے چینی لہجے میں کہتے ”بھٹو۔ بھٹو“ ۔ چین میں پاکستانی کمیونٹی کافی بڑی تھی۔ ایک تو سفارت خانہ کافی بڑا تھا، دوسرے مختلف سرکاری محکموں کے لوگ چینی زبان پڑھنے آتے تھے اور تعلیم کے حصول کے لئے آنے والے طلبہ کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ یہ آغا حسن عابدی کے بینک بی سی سی آئی کے عروج کا زمانہ تھا۔ چین میں اس بینک کے سربراہ سلطان صاحب تھے جو سنہ ساٹھ کے عشرے کے آخری سالوں میں چین میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔

پاکستان نے امریکہ اور چین کے تعلقات استوار کرانے میں ان کے ذریعے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بیگم سلطان نے ہمیں بتایا تھا کہ اس زمانے میں چو این لائی رات دو بجے تک ان کے گھر بیٹھے سلطان صاحب سے گفتگو میں مصروف رہتے تھے۔ پتا نہیں کتنے پاکستانیوں کو ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ یاد ہے۔ میڈیا کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی تھی۔ بتایا نتھیا گلی کا تھا اور وہ چین کا چکر لگا آیا تھا اور یوں 21 فروری 1972 صدر نکسن THE SPIRIT OF 76 نامی طیارے میں بیجنگ پہنچے۔ وہ چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی سربراہ حکومت تھے۔ وہ ہفتہ بھر چین میں رہے۔ انہوں نے اسے ”ایک ایسا ہفتہ جس نے دنیا کو بدل دیا“ قرار دیا۔

”عوامی جمہوریہ چین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بیس سال سے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے اور چھٹے عشرے کے اوائل یعنی کوریائی جنگ کے زمانے سے مسلسل ایک دوسرے کو مغلظات سنا رہے تھے مگر 21 فروری 1972 کو امریکی صدر اور چینی وزیر اعظم کے تاریخی مصافحے نے ایک طویل عرصے کی دشمنی سے عبارت بے لوچ رویے اور سرد مہری کی تمام برف پگھلا دی تھی۔“

سلطان صاحب اور ان کی بیگم سے ملاقات تو چین جا کے ہوئی لیکن ان سے غائبانہ تعارف 1968۔ 69 میں ہو چکا تھا۔ ان کی بیٹی نزہت سلطان کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ہمارے ساتھ تھیں۔ وہ ہم سے ایک سال سینئیر تھیں اور انگریزی میں ایم اے کر رہی تھیں۔ ہم چین کے دیوانے تھے اور ان کے والد کے چین میں سفیر ہونے کی وجہ سے سب لوگ ان سے مرعوب رہتے تھے۔ انقلاب اور سوشلزم کے حوالے سے ہماری دھواں دار بحث ہوتی تھی۔ آخر میں وہ تھک ہار کر کہتی تھیں ”اچھا بھئی جب تم لوگ پاکستان میں انقلاب لانے لگو تو ایک دن پہلے مجھے بتا دینا تا کہ میں یہاں سے چلی جاؤں کیونکہ میں خون خرابہ نہیں دیکھ سکتی“ ۔

اور ان مباحثوں کے سولہ سال بعد ہم دینگ سیاؤ پنگ کے چین میں موجود تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے کا رومانس کب کا ختم ہو چکا تھا اور چین بھی بدل چکا تھا۔ نائٹ کلب اور کوک کا کلچر یہاں بھی پہنچ گیا تھا۔ کراکوئے کلب مقبول تھے جہاں لوگ گلوکاری کا شوق پورا کرتے تھے۔ نئی نسل پر جلد از جلد انگریزی سیکھنے کی دھن سوار تھی۔ (جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےچین میں آٹھ سال (قسط 2 )۔چین کا ثقافتی انقلاب اور اس کے تہوار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments