آصف صاحب – کچھ یادیں کچھ ملاقاتیں


بعض رخصت ہونے والے، ہمارے وجود کا کچھ حصہ نہیں، بلکہ پورا وجود ہی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ تحریر، ایک ایسے ہی شخص کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے وجود سے نتھی اپنا وجود کھوجنے کی ایک سعی لاحاصل بھی ہے، جو اس کے جانے بعد گم ہوچکا ہے۔

انیس سو پچانوے چھیانوے میں کراچی وارد ہوا تو، فکشن، شاعری اور دیگر سنجیدہ موضوعات کے مطالعے کی چاٹ پہلے سے لگی ہوئی تھی، اگر چہ شاعری ترک کر کے افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوچکا تھا اور چند خام سے افسانے چھپ بھی چکے تھے لیکن یہاں کے ادیبوں سے ابھی ذاتی جان پہچان نہیں تھی، مگر اتنی تھی کہ ان میں سے بہت سوں کی تحریریں اور کتابیں راول پنڈی قیام کے دوران پڑھ چکا تھا، اسی لیے فطری طور پر سب سے ملنے کی خواہش تھی۔

اب سوچتا ہوں، توان برسوں کے کراچی کا ادبی (خصوصاً نثری) منظر نامہ خاصا دل چسپ اور وقیع لگتا ہے۔ غلام عباس، عسکری صاحب اور سلیم احمد آسودہ خاک ہوچکے تھے۔ ادب میں جدیدیت آخری سانسیں لے رہی تھی اور اب مابعد جدیدیت کا دور شروع ہورہا تھا۔ جدیدیت کے سرخیل، قمر جیل صاحب کی بیٹھک اور ان کا پرچہ بند ہوچکے تھے اور وہ اپنی صحت اور یادداشت کے مسائل سے نبرد آزما تھے۔ حمید نسیم مرحوم شاعری پر دو تنقیدی کتابیں لکھنے کے بعد اب نثر پر ایک طویل تنقیدی کتاب لکھنے میں رات دن مصروف تھے، جو بوجوہ آج تک شایع نہ ہو سکی۔ افسانے کی دنیا میں کہانی کی واپسی کا چرچا تھا، لیکن جو حقیقت پسند افسانہ لکھا جا رہا تھا، وہ واقعاتی سطح سے بلند ہی نہیں ہو پاتا تھا اور دوسری جانب جو لوگ علامتی اور تجریدی افسانہ لکھ رہے تھے، وہ ابہام کے ساتھ ہیئت کے مسائل سے بھی دوچار تھے۔ افسانہ نگاروں کی اکثریت کا تعلق ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں نمایاں ہونے والے فکشن نگاروں سے تھا۔ انیس سو اسی کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانہ نگار چند ایک ہی تھی۔

اس عرصے میں، ایک طرف فہیم اعظمی صاحب صریر نکالنے کے ساتھ تجریدی فکشن بھی لکھ رہے تھے، دوسری طرف احمد ہمیش کے جریدے تشکیل اور ان کے افسانے ”مکھی“ کا بھی شور تھا۔ محمود واجد صاحب نے افسانہ نگاری نے تائب ہو کر ”سہ ماہی آئندہ“ نکالنا شروع کر دیا تھا۔ سخی حسن کے قریب علی حیدر ملک کے ہاں فکشن گروپ (جسے بہاری گروپ بھی کہا جاتا تھا) کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ پی ایم اے ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین بھی فعال تھی، جس کے اجلاسوں میں حسن عابدی، نعیم آروی، ڈاکٹر شیر شاہ سید اور دیگر ترقی پسند لکھنے والے باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔

آواری ہوٹل کے کونے پر واقع ”بیک اینڈ ٹیک“ نامی ریسٹورینٹ میں بھی چند معتبر ادیبوں کا اکٹھ ہوا کرتا تھا، جن میں سے چند ایک کے علاوہ اکثر مردم بے زار محسوس ہوتے تھے۔ اجمل کمال صاحب اپنا اشاعتی ادارہ سٹی پریس بک شاپ قائم کرچکے تھے اور اکثر وہاں پر محمد خالد اختر بھی آ نکلتے تھے۔ اجمل صاحب نے فلم کلب بنایا تو وہاں پر فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید تنویر انجم، سعید الدین اور کبھی کبھار ذی شاحل سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ پیراڈائز پیلس میں، ایک طرف عذرا عباس نثری نظمیں لکھ رہی تھیں، ان کے ساتھ انور سن رائے ناول، افسانہ، شاعری، تینوں میں مصروف عمل تھے اور دوسری طرف افتخار جالب مرحوم بھی، اپنی بھاری بھر تنقیدی بصیرت لیے ہوئے موجود تھے۔ آرٹس کونسل کراچی پر یاور مہدی اور ان کے یاروں کا اجارا تھا۔ اس کے سوا اور بھی بہت کچھ ہورہا تھا۔ کئی ادبی پرچے نکل رہے تھے۔ کئی ادبی تنظیموں اور انجمنوں کے اجلاس باقاعدگی سے ہو رہے تھے۔

ابتدائی برسوں میں بہت سی جگہوں پر جانا ہوا، لیکن اس کے بعد اچانک ملاقات، ایک چھتیس سینتیس سالہ خوبرو اور وضع دار صاحب علم و ادب سے ہو گئی، جن سے ملنے کے بعد یہ ضرور محسوس ہوا تھا کہ ادبی آوارہ گردی اب اپنا ثمر لے آئی ہے۔ یاد نہیں آ رہا کہ کب اور کیسے، پہلی بار ان سے ملا تھا لیکن اتنا یاد ہے کہ گلشن اقبال کے بلاک نمبر چار میں واقع ان کے آبائی گھر میں ہی ملا تھا۔

ان کے تین افسانوی مجموعے اور کئی ناولوں اور افسانوں کے تراجم شایع ہوچکے تھے اور میں نے کچھ ہی تراجم، مضامین اور ایک افسانوی مجموعہ ”چیزیں اور لوگ“ پڑھ چکا تھا، جسے میں آج بھی ان کا بہترین افسانوی مجموعہ خیال کرتا ہوں۔ گرچہ اس کے بعد ان کے افسانوی مجموعے ”میں شاخ سے کیوں ٹوٹا“ ، ”شہر ماجرا“ ، ”شہر بیتی“ ، ”ایک آدمی کی کمی“ اور ”میرے دن گزر رہے ہیں“ شایع ہوئے۔ اپنے مجموعے ”ایک آدمی کی کمی“ میں انہوں نے کچھ سندھی لوک کہانیوں کو کامیابی سے اردو میں ڈھالتے ہوئے انہیں ہم عصر زندگی کے پیچیدہ واقعات سے، کامیابی کے ساتھ جوڑا ہے۔ شاید کچھ لوگ جانتے ہوں کہ انہوں نے ایک ناول لکھنے کا آغاز بھی کیا تھا، جس کا صرف ایک ہی باب رقم کیا جا سکا اور وہ آگے نہ بڑھ سکا۔

آصف صاحب انتظار حسین سے مرعوب و متاثر ضرور تھے لیکن انہوں نے افسانے میں اپنے لیے الگ راہ نکالنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ وہ نئے ماخذات کی تلاش میں سندھی زبان کی لوک روایات میں اندر تک چلے گئے۔ اور صرف سندھی پر ہی کیا موقوف، نجانے کتنی زبانوں کی پوری پوری روایات وہ گھول کر پیئے ہوئے تھے۔ ان کا فکشن اور نان فکشن پڑھ کر کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے۔

ان کا گلشن اقبال والا وہ گھر اور اس کا ڈرائنگ روم، کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے، جہاں آصف صاحب سے ہونے والی پہلی ملاقات ہی، ملنے ملانے کے ایک طویل سلسلے میں تبدیل ہو گئی۔ اس گھر کی پہلی منزل پر آصف صاحب کے والدین اور دوسری منزل پر وہ خود رہتے تھے۔ گھر کی گھنٹی بجانے پر کبھی آصف صاحب تو کبھی ان کی اہلیہ اور کبھی ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم ( جن کے چہرے پر ہمیشہ ایسی سنجیدگی، متانت اور رعب دکھائی دیتا کہ علیک سلیک کے سوا ان سے کوئی بات کرنے کی ہمت کبھی نہ ہو سکی) آکر گیٹ کھولا کرتے اور پھاٹک سے اندر آنے کے بعد مہمان کے لیے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا جاتا۔ مہمان اندر بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے سامنے کی دیوار پر نصب شمس العلما، ڈپٹی نذیر احمد کی تصویر دیکھتا رہتا۔ پھر کچھ دیر بعد ڈرائنگ روم کے کونے پر بنا ہوا دروازہ کھلتا اور کج مج سی بھوری آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے، طویل قامت، ہلکے سے گھنگھریالے بالوں والے آصف صاحب برآمد ہوتے اور دیکھتے ہی پوچھتے : ہاں، بھئی کیا حال ہے؟ کیسے ہو؟ کیا لکھا اور پڑھا جا رہا ہے؟ ان سوالوں کے جوابوں کے ساتھ ہی سلسلہ کلام دراز ہوتا چلا جاتا۔ اردو ادب کے ساتھ عالمی فکشن نگاروں کا تذکرہ چل نکلتا۔

یہ ان کی اپنی شخصیت کا طمطراق تھا کہ والد صاحب کا اثر، ابتدا میں آصف صاحب سے مل کر میں ایسا مرعوب ہوا تھا کہ ان سے بات کرنے سے پہلے مجھے کئی بار سوچنا پڑتا تھا کہ کیا بات کی جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ میری زبان میں لکنت بھی ہے، لیکن ان کا رعب داب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زائل ہو کر برابر کی دوستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ ایک مرتبہ ان سے اس کا اظہار بھی کیا کہ جب آپ سے شروع میں ملتا تھا تو آپ کے رعب میں رہتا تھا لیکن اب وہ ختم ہوگیا۔ جواب میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا : یہ تو بہت برا ہوا۔

جب تک آصف صاحب گلشن والے گھر میں رہے، ہم سے ادب کے پیاسے بار بار اس گھر کا طواف کرتے رہے۔ اور کیوں نہ کرتے۔ اس گھر کے ڈرائنگ روم میں کیسی کیسی شان دار ادبی اور فکری محفلیں برپا ہوتی تھیں، جو شہر بھر میں ہونے والی تمام ادبی تقریبات پر بھاری تھیں۔ اکثر محفلوں کے روح رواں وہ خود ہی ہوا کرتے تھے۔ میں نے وہیں پر پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں سے حوالے سے لکھا گیا انتظار حسین کا تازہ افسانہ ”مور نامہ“ سنا۔ اسد محمد خان نے جب اپنا طویل افسانہ ”رگھوبا اور تاریخ فرشتہ“ مکمل کیا تو آصف صاحب نے اسے اسد صاحب کی زبانی سننے کے لیے اپنے گھر میں باقاعدہ اہتمام کیا۔ اس افسانے کی قرات دو گھنٹے سے زیاد دیر تک جاری رہی۔ سب سنتے رہے اور اسد صاحب کی اعلی نثر سن کر اپنا سر دھنتے رہے۔

اردو کے مایہ ناز شاعر محبوب خزاں، جو شہر میں کسی جگہ نظر نہیں آتے تھے، انہیں بھی یہیں دیکھا اور ان سے ان کا کلام بھی سنا۔ انڈیا سے تشریف لانے والے شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، سید محمد اشرف، ساجد رشید اور محسن خاں سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔ وہ گھر اردو ادب کا ایسا مرکز و محور تھا کہ بہت سے ادبی ستارے وہاں آکر اپنی آب تو تاب دکھاتے۔ کس کس کا نام لوں۔

وہ مجھے ہمیشہ تاکید کرتے رہتے۔ لکھتے اور پڑھتے رہو۔ پڑھنے کے لیے وہ ہمیشہ نت نئی کتابیں تجویز کرتے اور اپنے کتب خانے سے بھی فکشن کی بعض کتابیں نکال کر پڑھنے کے لیے مستعار دے دیا کرتے۔ ایک بار ان کے آگے تو رگنیف کے طویل افسانوں کے اردو ترجمے ”جھونکے بہار کے“ کی تعریفوں کے پل باندھے تو وہ سنتے ہی بے چین ہو گئے اور کہنے لگے۔ کیسی شان دار کتاب ہے لیکن وہ کتاب مجھ سے کہیں کھو گئی ہے۔ اگر تم اپنی وہ کتاب مجھے دے دو، تو اس کے بدلے تمہیں چیخوف کے تراجم دے سکتا ہوں۔ چند روز بعد ”جھونکے بہار کے“ ان کے حوالے کردی۔

دھیرے دھیرے میرے افسانوں کے متعلق ان کی رائے بہتر ہونے لگی تھی۔ جب میں نے افسانہ ”خوامخواہ کی زندگی“ لکھا، تو اسے پڑھنے کے بعد کہنے لگے : اس کا ماحول ایڈ گر ایلن پو کے افسانوں کی طرح گمبھیر اور تاریک ہے، لیکن افسانہ بن گیا ہے۔ بہت بعد میں یہی افسانہ جب لاہور میں زاہد ڈار کو پڑھنے کے لیے دیا تھا، تو ان کا جواب تھا: مجھے لگتا ہے، تم نے یہ افسانہ مجھ پر لکھا ہے۔ ”

کتابوں کی اشاعت کا کام وہ بہت پہلے سے شروع کرچکے تھے۔ پہلے احسن مطبوعات کے نام سے کچھ کتابیں چھاپیں، جن میں افسانہ نگار ضمیر الدین احمد کی اردو شاعری کے جنسیاتی مطالعے پر مبنی کتاب ”خاطر معصوم“ بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے ایک دو افسانوی مجموعے بھی اسی ادارے سے چھپے۔ اس کے بعد انہوں نے سین پبلیکیشن کے تحت کچھ کتابیں شایع کیں، جن میں مصطفی ارباب، اکبر معصوم اور امر محبوب ٹیپو کی کتابیں مجھے یاد ہیں۔

ان دنوں امر محبوب ٹیپو اور عرفان خان نے ریگل چوک کے بیچوں بیچ ایک قدیم عمارت ”نرائن داس بلڈنگ“ میں ”سماوار“ نامی تنظیم کے بینر تلے ہفتہ وار ابی بیٹھک کا آغاز کیا۔ اس عمارت کا نام سین پبلشرز کے پتے کے طور پر بھی لکھا گیا۔ وہاں کچھ عرصے تک باقاعدگی سے تنقیدی نشستیں منعقد ہوئیں۔ ممتاز رفیق مرحوم نے اپنے ابتدائی خاکے وہیں پڑھ کر سنائے۔ ایک افسانہ میں نے بھی پیش کیا تھا۔ آصف صاحب، فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن، مبین مرزا اور کچھ احباب نے بھی وہاں اپنی نگارشات تنقید کے لیے پیش کی تھیں۔ لیکن یہ سلسلہ چند ماہ بعد ہی ختم ہوگیا۔

ایک شام کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ پیراڈائز پیلس میں چوتھی منزل پر واقع انور سن رائے اور عذرا عباس کے گھر میں احمد فواد، وسعت اللہ خان، آفتاب ندیم کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ آصف صاحب اکبر معصوم کی کتاب ”اور کہاں تک جانا ہے۔“ کا مسودہ بغل میں دبائے وارد ہوئے۔ ان کے آتے ہی محفل کا رنگ بدل گیا۔ انہوں نے اکبر کی شاعری کے پل باندھنے شروع کر دیے۔ اس کے بعد آفتاب ندیم نے بیٹھے بیٹھے تقریباً پورا مسودہ پڑھ کر سنا دیا۔ تمام سننے والے تازہ کار شاعر کا کلام سن کر عش عش کر اٹھے۔ اس کے بعد وہ کتاب شایع ہوئی اور اس کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل، کراچی میں ہوئی۔ اکبر معصوم اردو کے مین اسٹریم ادب میں شامل ہو گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments