قصے ناکردہ مہربانیوں کے


ہم اپنے ایک نہایت مہربان کی ناکردہ مہربانیوں کے ہمیشہ زیر بار رہے ہیں۔ موصوف نے یوں تو ہم پر بے شمار ”ایسے احسانات“ فرمائے ہیں۔ لیکن یہاں چند ایک کا ذکر ہی ہو پائے گا۔ اگر حضور کی کسی سخاوت کا چرچا ہونے سے رہ جائے، تو حضور معاف فرما دیجئے گا۔ وگرنہ دوسری صورت میں یاد دہانی کروا کے اپنا ”بار احسان“ برقرار رکھیے گا۔ ہمدم دیرینہ عرصہ ہائے دراز سے دیار غیر میں مقیم ہیں۔ ہم پر ہمیشہ ہمدردی جتاتے رہتے ہیں۔

بقول آنجناب نے کسی کے ساتھ کاروبار میں بڑی رقم سے شراکت داری کی۔ مگر دیار غیر میں کسی اپنے ہم وطن نے دھوکہ دے کر ساری رقم ہتھیا لی۔ آپ جناب کا اگلا بیان سن کر تو ہم دنگ ہی رہ گئے۔ آپ کا فرمانا تھا۔ یہ شراکت داری پوری طرح اس نیت سے کی گئی تھی۔ کہ یہ سب کچھ ہمیں عطا کیا جانا تھا۔ مطلب اصل زر، منافع و حصہ داری کی ملکیت ہمیں عطا کی جانا تھی۔ ہم اتنے بڑے کاروباری رقم کی ملکیت کی خوشی تو محسوس نہ کر سکے، البتہ اس نقصان پر تڑپ کر رہ گئے۔

ہم اپنی قسمت کو کوسنے لگے۔ ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوچکا ہے۔ ہمیں خبر تک نہیں؟ اب بات میں کچھ ہماری دلچسپی بڑھی۔ آپ نے اس کے خلاف کیس دائر کیوں نہیں کیا؟ ہمیں سمجھا دیا گیا، کہ آپ ابھی وہاں کے معاملات کو ٹھیک سے سمجھتے نہیں۔ بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا۔ لیکن آپ کی نیت بالکل صاف تھی۔ ماضی کے دیگر قصوں کی طرح۔

وہ ماضی میں بھی ہمارے لئے بہت سے قیمتی تحائف خرید کر لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ قسمت تو خراب اپنی ہے۔ کبھی یہ تحائف والا بیگ گم ہوجاتا ہے۔ کبھی زائد وزن کی وجہ سے ائر پورٹ پر چھوڑنا پڑ جاتا ہیں۔ کبھی یہ ہمارے تحائف والا بیگ اپنے فلیٹ پر بھول جاتے ہیں۔ ہائے ری قسمت!

آپ سال دو سال بعد نئے افکار سخاوت کے ساتھ وطن تشریف لاتے ہیں۔ کچھ سال پہلے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا پیکیج لے کر آئے۔ جس میں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے ساتھ ساتھ قرضے فراہم کر کے اپنے ذاتی کاروبار کرنے کی طرف راغب کرنا تھا۔ دوسرا اس سے بہت سے لوگوں کے لئے نئی ممکنہ نوکریاں بھی پیدا کرنا مقصد تھا۔ نوجوانوں کو یقین دلایا گیا کہ یہاں سے واپس جاتے ہی وہ اس نیک مقصد کی شروعات کے لئے ضروری اقدامات کا آغاز کردیں گے۔ سب نوجوان حضرات کی خدمت برف والی قلفی سے کی گئی۔ لیکن مصروفیت کے باعث صاحب پروجیکٹ کو وقت نہ دے سکے۔ بے چارے بھول گئے۔

بھولنے کے بعد والی آمد پر نیا ویژن علاقہ میں غربت دور کرنا تھا۔ غربا و بیواؤں کے فنڈز کا اجراء کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ سب کو باور کروایا گیا۔ اب برے دن دور سمجھیں۔ غربا و بیواؤں کے رہائش اور کھانے پینے کی ذمہ داری اس فنڈ سے پوری کی جائے گی۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو سکا۔

اگلی بار آمد بچوں کو مفت تعلیم کا پروجیکٹ ساتھ لائے۔ تعلیم دیار غیر کی طرز پر فراہم کرنا مقصود تھی۔ جس میں کتب، یونیفارم اور کھانا فراہم کرنا شامل تھا۔ علاقہ کے بچوں سے ملاقات و کوائف وغیرہ اکٹھے کیے گئے۔ بچوں کو آخر میں ایک ایک برف والی قلفی فراہم کی گئی۔ یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

اب کی بار جب تشریف لائے تو علاقے کے بچے کہہ رہے تھے۔ کہ وہی برف کی قلفی کھلانے والا آدمی آیا ہے۔
آپ کی دریا دلی و سخاوت کے ہم یوں ہی قائل نہیں ہو گئے۔ اس کے لئے نئے پروجیکٹ متعارف کروانا پڑتے ہیں۔

فلاحی ریاست کا قیام، دو کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، سوئس بنکوں سے دو سو ارب ڈالر کی واپسی، ڈیم، چھوٹی صنعتیں لگانے، برآمدات میں اضافہ، ٹیکس کولیکشن میں اضافہ، قرضے اتارنے، کرپشن فری ملک، سفارش، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاتمہ۔ ۔ ۔ خاتمہ۔ ۔ ۔ خاتمہ وغیرہ کے خواب سے مماثلت اتفاقیہ سمجھی جائے۔
بس یہ سب کچھ کر ہی چکے تھے، کہ یہ سالے کرونا نے سب کچھ ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ اب برف والی قلفی پر گزارا کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments