سیاسی اشرافیہ کی غیر سیاسی ”اشرفیاں“


بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں پاکستان کے معنی پاک لوگوں کی سرزمین کے ہے۔ اللہ کرے تاقیامت اس کے یہی معنی رہیں شاد رہے، آباد رہے۔ اس کی سلامتی ہماری سلامتی ہے اس کی خوشحالی ہماری خوشحالی اور اس کی۔ ۔ ۔ اشرافیہ ہماری اشرافیہ ہے کیونکہ ایک مکتبہ فکر کے نزدیک جیسی روح ویسے فرشتے، عوام جیسے ہوں گے حکمران بھی ویسے ہوں گے۔ دوسرا مکتب فکر سمجھتا ہے عوام حکمران کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ حکمران جو کریں گے عوام بھی ویسا کریں گے۔

اس کرنے نہ کرنے کی بحث میں کرنے کی بات یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘ کے مصداق ہو چکی ہے۔ یہ پیار کا نشہ ایسا نشہ ہے جس میں نشہ مخالف داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو پھر نشہ باز آپے میں نہیں رہتا، ہلڑ بازی کرتا ہے اور پھر مخالف کو ایسے پٹختا ہے جیسے جھارا پہلوان انوکی کو پٹخا کرتا تھا۔

آج کل ”پسند پرستی“ کا یہ نشہ دوآتشہ ہو چکا ہے۔ اس میں شخصیت پرستی کی شدت تو تھی ہے اب اس میں بدتمیزی کی حدت بھی شامل ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا ایسے نشہ بازوں کی آماج گاہ ہے جہاں روز یہ ترکش کے تیروں کو زہر کے پیالے میں ڈبوتے ہیں، نشانہ لیتے ہیں اور پھر کمال فخر اور تمسخر سے مخالف کے جسم میں اتارتے ہیں۔ خبر نہیں روز حشر اس بدتمیزی کا انہیں کتنا ”ثواب“ ملے گا۔

اپنی اشرافیہ سے یہ والہانہ محبت ہی تو ہے تو انہیں مغرور، خود سر اور ”شریر“ بناتی ہے۔ ان شرارتوں کا اظہار ان دنوں ایک امریکی حسینہ بھی کر رہی ہے اور وہ یادوں کی پٹاری سے آئے روز شرارتوں کی شرلیاں چھوڑ رہی ہیں شوقین مزاج اس کا چسکا لیتے ہیں اور غیر شوقین کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات یوں تو بہت پرانے ہیں لیکن اس کی ”گہرائی“ اتنی بھی ہوگی واللہ اس کا اندازہ نہ تھا۔ ( ویسے امریکیوں نے ہمارے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ہم اتنی لالچی قوم ہیں کہ ڈالر کی خاطر اپنے عزیز ترین خونی رشتے کو بھی بیچ دیتے ہیں ) ۔

73 سال کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حکمران اشرافیہ کی خانگی زندگی میں ملا جلا رجحان ہی ملتا ہے۔ کسی پاک باز حکمران نے پاکبازی کو مقدم رکھا تو کسی نے اسے طاق کی زینت بنایا۔ پاکستان کی سیاست میں یونانی فاتح کے ہم نام ایک حکمران ہوا کرتے تھے جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بہت شوقین مزاج تھے۔ شوقین مزاجی کی نوعیت کیا تھی اس کی تشریح مختلف ہو سکتی ہے لیکن سہولت کے لئے بس اتنا سمجھ لیں کہ 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے تھے۔ مقدر کے اس اسکندر کے گرد بھی کافی اشراف تھے جو حکمرانی کے نشے میں ایسے مدہوش رہے کہ گل کھلاتے کھلاتے ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔

پھر میدان حرب کے ایک گھبرو جوان آئے لیکن ان کا اپنے اعصاب پر کافی کنٹرول تھا۔ پینے پلانے اور دوسرے خرافات کا چونکہ شوق نہ تھا اسی لئے عوام کے دل میں گھر کر گئے پھر عوام کے ایک قائد آئے جنہیں پینے کا اتنا شوق تھا کہ برملا کہتے ”ہاں مجھے پینے کا شوق ہے لیکن عوام کا خون نہیں پیتا“ ۔ ان کی ایک خاندانی اور ایک غیر خاندانی زوجہ تھی جبکہ ایک بنگالی حسینہ کے جادو کے بھی اسیر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب دھڑکن دل تیز سے تیز تر ہوئی تو ایک مولانا نے جو ان کے وزیر خاص بھی تھے نکاح پڑھوا دیا جبکہ سیاست کے تمام کھروں کا پتہ رکھنے والے ان کے گواہ ٹھہرے۔

اس محبوب قائد سے پہلے ایک غیر محبوب شخصیت بھی گزری ہے جن کی 12 اشرفیوں کا چار دانگ عالم چرچا ہے۔ ان کی ایک اشرفی اتنی مشہور تھی کہ پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ایک ہیروئن نے بھی وہی نام رکھ لیا اس دور میں ہی لوگوں کو ترانہ اور قومی ترانہ کا مطلب بھی سمجھ میں آیا تھا۔

محبوب قائد سے پہلے والے جتنے بدنام ہوئے محبوب قائد کے بعد والے اتنے ہی صراط مستقیم پر چلنے والے نکلے اگرچہ ان کی حق بازی 90 روز سے شروع ہو کر 11 سال پر جا کر ختم ہوئی لیکن انہوں نے ”اشرفی کلچر“ ختم کرنے کا پورا پورا سامان کیا لیکن جو اشرفی کلچر کے قائل تھے انہوں نے اس مرد مومن کو کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر سے ناحق بدنام کیا، بعد میں ان کے ہی ایک وزیر داخلہ تھے جو کلاشنکوف کے لائسنس ریوڑیاں سمجھ کر بانٹتے رہے اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں۔

اشرفی کلچر کے بت شکن دور میں ایک شریف کی اٹھان ہوئی جن کی مائل بہ پہلوانی مزاج کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ایک ہنس مکھ وکیل کا گھر اجڑ گیا۔ ان کو شاد کرنے کے لئے ایک بیگم بھی آئی اور ان بھلے وقتوں میں ایک گوری صحافی بھی اس کشمیری شہزادے کو بھائی۔ وائٹ پرسنز میں سے ایک نے ہماری ایک کرشماتی قیادت پر بھی بجلی گرائی اور پھر یہ بجلی ہمارے انتخابات کے موقع پر بھی مخالف خوب گراتے رہے۔ سیاست کے شہنشاہ جذبات کی بات کریں تو ان کی زندگی بھی مثل متنجن ہے اور ان کے دستر خوان پر ہر قسم اور ہر رنگ کی اشرفیاں دیکھنے کو ملتی ہیں حالانکہ وہ انہیں بڑے پردے میں رکھنے کے قائل ہیں اور رکھنا بھی چاہیے شریف لوگوں کا ہمیشہ سے یہی چلن ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹھنڈے پہاڑوں میں رہنے والے ایک سیاست دان کا جب آتش جواں تھا تووہ بھی فلمی دنیا کی ایک ریشمی زلف کے اسیر ہوئے۔ بعد میں انہیں ایک عبادت گزار خاتون سیاست دان کی دختر پسند آئی تو وہ سرکاری خرچ پر امریکا یاترا کرنے لگے اور کم وہ بیش اتنے ہی چکر لگائے جتنی موجودہ امریکی دوشیزہ نے پاکستان کے لگائے۔ ان برفیلے سیاست دان کے چکروں کی بھنک جب ایک اخبار نویس کو پڑی اور اخبار میں یہ خبر لگی تو باکمال لوگوں نے لاجواب سروس یہ کی کہ اس اخبار کی اپنے دفاتر میں ترسیل بند کردی۔

اشرفیوں کے شیدائی راجے، مہاراجے اور شیخ بھی رہے ایک راجہ صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں کنول کا پھول بہت پسند تھا جبکہ ایک شیخ صاحب ایک زمانے میں اشرفیوں کی آنکھ کے تارے تھے۔ اب بھی تارے ان کے دل میں اترنا چاہتے ہیں لیکن ان کے دل کے تاروں میں ارتعاش پیدا نہیں ہوتی اور اب وہ اس کا برا بھی مان جاتے ہیں۔

بات ایک روشن خیال جماعت کے رہنماؤں کی اشرفی دوستی سے شروع ہوئی تھی جس کی قیادت کو ڈالر گرل سے بدنام کرنے کی بھی کوشش کی گئی ایسے ہی جیسے موجودہ دوشیزہ کر رہی ہے اور ان کو بھی کر رہی ہے جن کے ایک احتجاجی ریلی کا شریفانہ ویڈیو کلپ خوب وائرل ہوا تھا۔ ان سب کے باوجود اللہ کرے کہ دشمن کی کوشش ناکام ہو ان کے آلودہ ذہنوں میں ایسے کیڑے پڑیں کہ انہیں کھانے کے لئے اس سے بڑے کیڑے پیدا ہوں جو ہمارے پاک دامن اشرافیہ کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذکورہ تمام قصے کہانیاں غلط ہیں تو دروغ بر گردن راوی، اور آخر میں ایک بات۔ ۔ ۔ وہ تمام اشرافیہ جن کی رنگینی مزاجی کی داستانیں ہیں، کس نے کتنی اشرفیاں رکھیں کس نے اس کا اظہار کیا اور کس نے کاغذات نامزدگی میں اسے چھپایا اور پھر مجبوری میں اسے ظاہر کیا، ان کا ذکر خاص رہ جانے پر دلی معذرت!

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments