کرونا رویہ۔ ۔ ۔ ایک ”حیرت انگیز کا قصہ“۔


ہمارے ایک بزرگ تھے۔ کوئی دلچسپ بات بتانی ہوتی تو کہتے۔ آؤ تمہیں ایک حیرت انگیز کا قصہ سناؤں۔
تو آئیے میں بھی آپ کو ایک حیرت انگیز کا قصہ سناؤں۔

گاؤں میں ایک جگہ بیٹھا تھا جہاں سات آٹھ افراد اور بھی بیٹھے تھے، ان کے مابین ہونے والی گفتگو پڑھیے۔ گفتگو پڑھنے کے دوران شرکا کے لہجوں کے تیقن کو تخیل میں ضرور لائیے گا۔

ایک نے دو واقعات بتائے کہ کیسے ان کے بہت قریبی جاننے والوں کو زہر کے انجکشن دیے گئے اور میتوں کو بغیر بتائے دفنا دیا گیا۔ ایسے میں ایک اور صاحب اٹھے اور کہنے لگے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ کوئی مریض کسی اور مرض میں ہسپتال لے کر جائیں اور ڈاکٹروں کے کہنے پر اس کو کرونا کا مریض قرار دے دیں تو ایک لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ اگر آپ انکار کر دیں اور آپ کا مریض مر جائے تو جہاں بھی آپ دفنانے کے لیے قبرستان لے کر جائیں گے آپ کے پیچھے پیچھے اہلکار پہنچ جاتے ہیں جو آپ سے اڑھائی لاکھ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ان کو یہ رقم نہ دی گئی تو وہ میت یہاں سے لے جائیں گے۔

آپ کو حیرت تو نہیں ہو گی کیونکہ یہ باتیں پورے ملک میں ہی لوگ کر بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔ لیکن اس میں حیرت کا مقام یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد یہی شرکا فرماتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ کیسا ظلم ہو رہا ہے کہ ڈاکٹروں کو مناسب کٹیں نہیں دی جا رہیں اور وہ کرونا سے مر رہے ہیں۔ نا اہلی اور غفلت کی مثالیں قائم کر رہی ہے یہ حکومت۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب گو کہ آپ مجھے کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ ایک ہی منہ سے نکلے ہوئے ارشادات ہیں تو میں نے ان کو یہ کیوں نہیں کہا کہ پیارے بھائیوں ایک طرف اگر یہ ڈاکٹرز آپ کے خلاف بھیانک سازش میں ملوث ہیں اور آپ کو زہر کے ٹیکے لگا رہے ہیں تو ان ڈاکٹروں سے آپ کی ہمدردی کیسی؟ انہیں کسی حفاظتی لباس کی ضرورت بھی کیونکر کہ کرونا تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ ۔ ۔ اور آپ کی ان سے ہمدردی کیونکر کہ یہ تو آپ کے پیاروں کی لاشوں کا سودا کر رہے ہیں لاکھوں میں۔

لیکن آپ مجھے یہ سب سوال ان شرکا سے پوچھنے کا نہیں کہہ سکتے۔ کیوں نہیں کہہ سکتے اس کا جواب آخر میں دیتا ہوں۔ لیکن پہلے انہی شرکا سے ایک اور بات بھی سن لیجیے۔ کسی نے سوال پوچھا آج کتنی اموات ہوئی ہیں؟ جواب ملا بانوے۔ دیگر حضرات تو گویا چلا اٹھے۔ یہ سب بکواس ہے ہزاروں لوگ کرونا سے مر رہے ہیں لیکن حکومت چھپا رہی ہے۔

اب آپ پھر مجھے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ لاشوں کو بڑھانے کے لیے ایک ایک لاکھ آفر بھی کیے جا رہے ہیں تو یہ کیسا حکومت کا سودا ہے۔ ایسی کثیر سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے اور لاشیں بھی کم بتا رہی ہے حالانکہ اس کو تو زیادہ بتانی چاہیے تا کہ اس کو امداد میں ایک لاش کے عوض لاکھوں ڈالر ملیں۔

متذکرہ بالا مکالمہ نما گفتگو کو نفسیات میں عقلی انتشار کہا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس ترکیب کا درست ترجمہ کیا ہے یا نہیں بہرحال اس کو انگریزی میں کہتے ہیں
Cognitive dissonance
(معاف کیجئے گا مجھے اردو پیراگراف میں انگریزی لکھتے ہوئے کچھ تکنیکی مسائل کا سامنا رہتا ہے )

عقلی انتشار پر قابو پانا کسی جزوقتی تربیت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا مکالمہ آپ کے سامنے آتا ہے جو عقلی انتشار اور تصدیقی تعصب سے بھرپور ہوتا ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ ایسے افراد کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں یا ان ارباب اختیار کو گالیاں نکال سکتے ہیں جو ان کی اس ذہنی سطح کا ذمہ دار ہے۔ عقلی انتشار کے حامل افراد ایک ہی وقت میں متضاد بیانات دیتے ہیں یا اپنی ہی کسی غیر عقلی بات یا عمل کو سپورٹ کرنے کے لیے غیرمنطقی دلائل لے آتے ہیں۔ ان خامیوں پر قابو پانے کے لیے علم اور تجربات کا ایک خاص تنوع اور تسلسل چاہیے ہوتا ہے۔

تہذیبی ترقی ایک بتدریج عمل ہے۔ انسانی ذہن بہت سے غیر عقلی رویوں کو رد کرنے میں بڑا عرصہ لگا دیتا ہے اس کی وجہ کھوپڑی کے اندر قدیمی دماغی حصوں کا آج بھی بے حد مضبوط ہونا ہے۔ عقل پر مبنی حصے۔ نوزائیدہ بھی ہیں اور کمزور بھی ہیں۔ خوف اور غصے پر قابو پانا عقل کے لیے بہر حال ایک چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی تیز اثر پھکی دریافت نہیں ہوئی۔ علم اور تجربات کا تنوع آہستہ آہستہ آپ کو اس قابل کرتا ہے کسی اچانک جذباتی تحریک پر آپ بخوبی قابو پا لیں۔ اگر آپ یہ خوبی پا لیتے ہیں اور فرد ہیں تو آپ کو تعلیم یافتہ اور مہذب کہا جاتا ہے۔ اگر آپ معاشرہ ہیں تو آپ کو ایک تہذیب یافتہ معاشرہ کہا جاتا ہے۔ افراد میں چند غیر معمولی صلاحیتوں کی مدد سے اپنی زندگی میں ہی تہذیب یافتہ ہونے کی سند لے سکتے ہیں لیکن معاشروں کو بہت وقت لگتا ہے۔ بعض اوقات صدیاں لگ جانا بھی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جا سکتی ہے۔

عقلی انتشار، غیر عقلی خوف اور عقلی تعصبات۔ ۔ ۔ یہ وہ تین بلائیں ہیں جو اگر نہ ہوں تو معاشرہ اور افراد تہذیب یافتہ اور اہل علم کہلاتے ہیں۔ یہ تین بلائیں اگر کسی معاشرہ میں راج کرتی ہوں تو وہ معاشرہ پسماندگی کا ٹیگ ماتھے پر یوں سجاتا ہے کہ خود اس کو ماتھے پر لٹکے اس ٹیگ کا علم نہیں ہو پاتا۔

ایک دفعہ ایک ویڈیو کلپ کلپ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوا جس میں اینکر مختلف بزرگ اور ان پڑھ لوگوں سے پوچھتا ہے کہ ٹک ٹاک مہنگا ہو گیا ہے جس پر یہ بزرگ برس پڑتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ ٹک ٹاک کو سستا کرے غریب مر گئے ہیں اور حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔

اس ویڈیو کلپ میں تفنن کا مقام اپنی جگہ لیکن ساتھ ہی دکھ کا مقام بھی ہے۔ اس خطے میں افراد کے ساتھ کیا ہوا۔ کیوں انہیں معیاری تعلیم سے بے بہرہ رکھ کر کمزور ترین عقلی سطح پر رکھا گیا۔

میرے ایک دوست روایتی تعلیم میں اعلیٰ ترین ڈگری رکھتے ہیں اور یہ ڈگری سائنس سے متعلقہ ہے، کچھ عرصہ پہلے فون پر کہنے لگے کہ لگتا ہے کرونا ایک عالمی سازش ہے اور آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے پیار سے کہا کہ اجتماعی عالمی شعور عمومی طور پر غلط نہیں ہوتا۔ ہاں ہر مثبت اور منفی معاملہ پر ممالک کے اندر گروہ اس معاملہ پر سیاست کرتے رہتے ہیں لیکن بندہ خدا اب آپ کو نقصان دینے کے لیے دنیا بھر اور بشمول آپ کے ملک کے ڈاکٹرز اور سیاستدان، سماجی رہنما اور فنکار برادری سب کے سب کیسے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ نہ تو آپ کوئی ایسی دور مار کی توپ ہیں کہ جس کو برباد کرنے کے لیے ایسی کمال عالمی سازش تیار کی جائے جس میں دنیا بھر کے دو سو ممالک شریک ہو جائیں اور سازش باہر نکلنے کا امکان بھی صفر ہو جائے۔ یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ اگر واقعی اتنی مربوط عالمی سازش ہے تو پھر بھی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی کمال مربوط سازش کے سائے میں آپ کا مرنا یقینی ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments