کورونا وائرس: کیا ایران کو کووِڈ 19 کی دوسری بڑی لہر کا سامنا ہے؟


ایران

حالیہ دنوں میں ایران میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کورونا کیسز میں حالیہ اضافے نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ آیا ایران کو اس وبا کی دوسری بڑی لہر کا سامنا تو نہیں؟

اپریل کے وسط میں ایران نے لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں میں اس وقت نرمی کرنا شروع کی تھی جب کورونا سے متاثرہ افراد کی یومیہ تعداد کم ہونا شروع ہوئی تھی۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران اب اپنے اُس اقدام کی قیمت چُکا رہا ہے؟

ایران میں کیسز میں اضافے کی شرح کتنی ہے؟

جون کے ابتدائی ہفتے میں اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر تین ہزار نئے مصدقہ متاثرین سامنے آئے ہیں۔ متاثرین کی یہ تعداد گذشتہ ہفتوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔

چار جون یعنی گذشتہ جمعرات کو یومیہ متاثرین کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ اس وقت سامنے آیا جب ایک ہی دن میں 3574 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔

تاہم چار جون کو بننے والے ریکارڈ کے بعد یومیہ متاثرین کی تعداد کچھ کم ہوئی ہے۔

کورونا بینر

آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟


وبا کے ابتدائی پھیلاؤ کے دوران 30 مارچ کو ایران میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 3186 متاثرین سامنے آئے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب چین کے بعد ایران کو کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک سمجھا جا رہا تھا۔

اُس وقت ایران کے حکام کو اس تنقید کا سامنا تھا کہ وہ اپنے ملک میں مشہور مذہبی مقامات اور مساجد کو بند کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔ ایرانی حکام پر یہ تنقید بھی کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے عوام اور مذہبی سیاحت پر آنے والے افراد کی نقل و حرکت کو زیادہ محدود کیوں نہیں کر رہے ہیں۔

تاہم بعد میں پابندیاں تھوڑی سخت کر دی گئیں۔

ایران

ایران میں مئی کے اختتام تک مساجد اور مذہبی مقامات عوام کے لیے دوبارہ کھول دیے گئے تھے

اپریل کے مہینے میں ایران میں یومیہ کیسز کی اوسط تعداد کم ہو کر ایک ہزار سے گھٹ گئی اور یہی وہ وقت تھا جب ایرانی حکام نے لاک ڈاؤن میں نرمی برتنا شروع کر دی۔

  • 20 اپریل: شاپنگ مالز اور بازار دوبارہ کھول دیے گئے جبکہ بین الصوبائی نقل و حمل بھی بحال کر دی گئی
  • 22 اپریل: پارکس اور دیگر تفریحی مقامات کو بھی دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا گیا
  • 12 مئی: حکومت نے تمام مساجد کو کھولنے کی اجازت دے دی
  • 25 مئی: بڑے مذہبی مزارات کو دوبارہ کھولنے کے احکامات جاری ہو گئے
  • 26 مئی: ریستوران، کیفے، میوزیم اور تاریخی مقامات بھی کھول دیے گئے

یہ سب کُھل جانے کے بعد پورے ایران میں پبلک ٹرانسپورٹ، بینک اور دفاتر شہریوں سے کھچا کھچ بھر گئے۔

ابتدا میں ایران میں وبا کا زیادہ زور قُم اور ایران کے دارالحکومت تہران تک محدود تھا۔

مگر اب نئے کیس جنوب مغربی علاقوں خاص کر صوبہ خوزستان سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ خوزستان عراق کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور تیل کے ذخائر سے مالا مال صوبہ ہے۔

ایران میں وبا دوبارہ کیوں سر اٹھا رہی ہے؟

ایران

پابندیوں میں نرمی کے بعد واضح طور پر سماجی رابطے بڑھے ہیں تاہم ایران میں حکام کا کہنا ہے کہ کیسوں کے نمبر بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹیسٹنگ زیادہ کی گئی ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ٹیسٹگ میں اضافے کی وجہ سے نئے کیس سامنے آنے کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔

ایران کے شعبہ صحت سے منسلک وبائی امراض کے ماہر محمد مہدی نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے کہ ’کیسوں میں اضافے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ایسے مریضوں کی نشاندہی کرنے کا عمل شروع کیا ہے جن میں بیماری کی بظاہر کوئی علامات نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بہت ہی کم۔‘

ایران میں ٹیسٹنگ کی شرح ہر 79 افراد کی آبادی میں ایک شخص کے لگ بھگ ہے جبکہ دو ماہ قبل یہ شرح 380 افراد میں ایک تھی۔

مگر جب آپ مثبت نتائج کے تناسب پر ایک نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مئی کے وسط سے لے کر مئی کے اختتام تک کیسوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

29 مئی تک مثبت کیسوں کی شرح 11 فیصد سے کم تھی یعنی ہر سو ٹیسٹوں میں سے 11 ٹیسٹ مثبت ہو رہے تھے مگر چھ جون تک یہ شرح 14 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

صحت حکام نے واضح کیا ہے کہ یومیہ ہلاکتوں کی تعداد اپریل کے وسط سے 100 سے کم ہے۔

گذشتہ ماہ ہر ایران میں ہر روز کورونا سے 30 سے 90 کے درمیان اموات ہو رہی تھیں۔

یہ بات واضح رہے کہ یومیہ ہلاکتوں میں اضافہ انفیکشن کی شرح میں ابتدائی اضافے کے کافی روز بعد سامنے آتا ہے۔

اپریل میں ایرانی پارلیمان کے تحقیقی مرکز ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے باعث ہونے والی اموات ان ہلاکتوں سے دگنا ہو سکتی ہیں جتنی کے اس وقت ملک میں سرکاری طور پر رپورٹ ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ایران میں صرف ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کی تعداد سرکاری سطح پر جاری کی جاتی ہے۔

سماجی فاصلہ اختیار کیا جا رہا ہے؟

ایران

ایران کے وزیر صحت سعید ناماکی کہتے ہیں کہ عوام مناسب سماجی فاصلہ اختیار کرنے کی ہدایت کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

ایرانی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اس وبا کے بارے میں بالکل لاپرواہ ہو چکے ہیں۔ اگر عوام صحت کے ضابطوں کی پابندی میں ناکام رہے۔۔۔ تو ہمیں بدترین صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘

گذشتہ ہفتے وزارتِ صحت کی جانب سے کروائے گئے ایک پول سے یہ نتائج سامنے آئے

ایران کی 40 فیصد آبادی سماجی فاصلے کے اصول پر عمل پیرا ہے جبکہ وبا کے آغاز پر یہ تعداد 90 فیصد تھی۔

وبا کے آغاز میں 86 فیصد لوگ خود ساختہ آئسولیشن کے اصول پر کاربند تھے اب یہ تعداد 32 فیصد ہے۔

حکام کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

صدر حسن روحانی پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر وبا نے دوبارہ اپنا سر اٹھایا تو پابندیاں دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔

بی بی سی فارسی کی نمائندے رانا رحیمپور کہتے ہیں کہ تہران میں موجود ایرانی لیڈر شپ وبا کے ’دوسرے دور‘ پر بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے اس بات سے قطع نظر کے ایران ہی میں چند حکام اس حوالے سے لگاتار متنبہ کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر ایران میں لاک ڈاؤن کا نفاذ غیرمعینہ مدت کے لیے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ معاشی مسائل کی بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں، بدعنوانی اور بدانتظامی ہے۔

انھوں نے کہا ’وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آپ کو لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر لاک ڈاؤن کے دوران آپ (حکومت) کو اس قابل ہونا چاہیے کہ آپ عوام کو معاشی تحفظ فراہم کر سکیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp