اگر زمین گردش کرتی توہم بندر کی طرح لٹکے ہوتے


کئی سال قبل منشیات کے موضوع پر سیمینار میں میرا شرکت کے لئے سنگاپور جانا ہوا۔ وہاں ایک ہفتہ کا قیام تھا جون کا مہینہ تھا۔ گرمی کافی تھی۔ سنگاپور ایک جزیرہ ہے۔ وہی شہر ہے اور وہی ملک ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ پرانی انڈین فلم کا ایک گیت بھی تھا۔ ”زندگی میں ایک بار آنا سنگاپور“ چھوٹے چھوٹے بیشمار جزیروں کے علاوہ ساتھ ہی ملحقہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ ”سنتوسا“ جس میں داخل ہوتے ہی بلاشبہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم جیسے جنت ارضی میں داخل ہو گئے ہوں۔ اس شہر کے چار حصے ہیں۔ ان میں ایک کا نام ”لٹل انڈیا“ ہے جس میں ان کے مندر، دکانیں، سٹور، ہوٹل موجود ہیں اور انڈیا کے لوگوں کی اکثریت وہاں آباد ہے۔

اس کے زیر زمین جو ٹرینیں چلتی ہیں۔ ان کے اس وقت سات اسٹیشن تھے اور ہر اسٹیشن کے آنے پر اس کا اعلان ہوتا ان میں ایک سٹیشن ”دھوبی گھاٹ“ کا بھی ہے جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ جنگ عظیم دوم میں یہاں جاپان کے مقابلے کے لئے برٹش آرمی موجود تھی جس کی اکثریت انڈیا کے جوانوں پر مشتمل تھی۔ ہماری واپسی میں دو دن رہتے تھے کہ اچانک فضا میں دھند چھا گئی کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ٹرینیں اور بسیں بند ہو گئیں فلائٹس معطل کر دی گئیں۔ میری اہلیہ پریشان تھی کہ ہماری واپسی کیسے ہوگی کہ ایک روز وہاں کے مسلمان مذہبی سربراہ کا بیان شہ سرخیوں میں شائع ہوا کہ ”ایسے موسم میں دھند کا چھا جانا ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔“ ۔

مجھے ہنسی آ گئی کہ جہاں سائنسدان اور ماہرین موسمیات اس انہونی مصیبت کے اسباب کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ مولوی جہاں کا بھی ہو اس نے کبھی دلیل سے بات نہیں کرنی اور ہمیں گناہوں کی دلدل سے نکلنے نہیں دینا۔

مجھے یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب مدنی چینل پر ایک مذہبی شخصیت نے بچوں کے ذہن سے جدید سائنسی نظریہ نکال کر فتوٰی دیا کہ سورج کی بجائے زمین ساکن ہے اور سورج اور چاند ستارے اس کے گرد گردش کرتے ہیں کیونکہ پچھلی صدی میں ان کے امام حضرت احمد رضا خان نے قرآن اور سنت سے یہ ثابت کیا تھا جب ان کے بیان کی دلیل کے ساتھ تردید کی گئی تو پھر ایمان والوں کی طرف سے چینل پر اور سوشل میڈیا پر سخت غصے کا اظہار کیا گیا کہ وقت کے امام نے جب قرآن اور حدیث سے ثابت کر دیا ہے تو مزید بات بڑھانے کی ضرورت نہیں اور واضح کیا کہ اگر سورج کی بجائے زمین گردش کر رہی ہوتی تو ہم بندروں کی طرح لٹکے ہوتے۔

جہاں تک بات تھی۔ اسلامی طریقے سے کھیرا کاٹنے اور کیلوں کو رکھنے کی کہ کیلوں کی ٹانگیں قبلہ رخ نہ ہو جائیں ہم خاموش رہے کیونکہ مذہبی معاملہ تھا۔ ہم اس بات پر بھی مہر بہ لب رہے کہ شرع کے مطابق مسواک کی لمبائی کتنی ہو اور بیوی اگر خاوند کے جوتے پہن کر واش روم میں داخل ہوگی تو گناہ کی مرتکب ہو گی۔ اس طرح کے لایعنی فتوے صدیوں سے موسلا دھار بارش کی طرح اس غریب قوم کے سر پر پڑتے رہے اور جس بدنصیب نے کبھی زبان کھولی تو اس کو کفر کے فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مخمصہ یہ ہے کہ ایک مذہبی آدمی نے اپنے امام وقت کی پیروی میں اب تک کائنات پر ہونے والی ریسرچ کو بلا کسی استدلال کے بیک قلم مسترد کر دیا ہے اور اسے سائنسی نظریے کی بجائے مذہبی مسئلہ بنا دیا ہے تو اب کیا کیجیے۔

ماضی میں جب ہمارے مسلمہ مجتہدین مجدد الف ثانی اور دوسرے مذہبی رہنماؤں نے مضامین ریاضی اور سائنس کے خلاف فتوے دیے تو سر سید احمد خان نے تاریخی بیان دیا۔

”وہ مختلف مذہبی کتابیں کون سی ایسی ہیں جو مذہبی اصولوں کے مطابق مغربی فلسفے اور سائنسی معاملات سے بحث کرتی ہیں۔ میں کہاں سے زمین کی حرکت یا سورج سے اس کی قربت کی تصدیق یا تردید کر سکوں اس لئے ایسی کتابوں کا نہ پڑھنا ان کے پڑھنے سے بہتر ہے۔ اگر مسلمان سچا سورما ہے اور سوچتا ہے۔ اس کا مذہب صحیح ہے تو اسے بلا جھجک مغربی علوم اور جدید تحقیق کی طرف متوجہ ہونا چاہیے“ سوچئے ان کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے۔

اس وقت کے ایک اور دانشور سید امیر علی نے اسلامی سائنس اور تہذیبی زوال کا ذمہ وار الاشعری، ابن حنبل، الغزالی اور ابن تیمیہ کو ٹھہرایا الغزالی کی ایک نوجوان کو سرزنش ”اے نوجوان کتنی راتیں تم نے سائنس کے ورد اور کتابیں پڑھنے میں گزاری ہیں۔ اگر اس کا مقصد دنیاوی حصول اس کے جاہ و تکبر کی تحصیل، اپنے ہم عصروں پر فوقیت کرنا ہے تو تم پر لعنت اور بار بار لعنت۔“

یہی صورت حال ہم یورپ کے تاریک دور میں دیکھتے ہیں۔ جہاں صدیوں ارسطو اور بطلیموس کی بیان کردہ فلکیات کا نصاب رائج تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ عیسائی علماء کا نظریہ تھا کہ زمین کی دوسری سمت نہیں ورنہ جتنے واقعات دھرتی کے اوپر واقع ہوئے مثلاً کوہ طور حضرت عیسٰی کے معجزات اور طوفان نوح ان کو زمین کی دوسری طرف دوبارہ رونما ہونا پڑتا ان کا عقیدہ تھا کہ وبائیں، سیلاب، قحط، زلزلے ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔ پوپ کا فرمان تھا کہ چیچک کی بیماری ہمارے گناہوں کی پاداش میں خدا کی طرف سے سزا ہے۔ انسان ماورائی قوتوں کے حوالے سے مکمل طور پر مذہبی طبقے کے شکنجے میں تھا۔ تعصب جاہلیت اور توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔ سائنسی تحقیق ناممکن اور مذہبی عدالتوں میں ہزاروں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

تحریک احیائے علوم، سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بعد کائنات کا تصور بدلنے لگا اب انسان نے مذہبیت کے خول سے نکل کر فضائے بسیط کو اپنی سوچ کا محور بنا لیا۔ اسے احساس ہوا کہ کائنات تو اخلاقی اصولوں کی بجائے ایک میکنزم سے طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اسی سوچ اور مشاہدے کے نتیجے میں کوپر نیکس اور گیلیلیو نے زمین کی بجائے سورج کو کائنات کا مرکز قرار دے دیا تو کلیسا کے غیض و غضب کی حد نہ رہی۔

کیتھولک عدالت نے بائیبل کی غلط تاویل کے نتیجے میں گیلیلیو کے لئے اس کے عمر قید کی سزا مقرر کی اور اسے اس کے گھر میں ہی محصور کر دیا گیا اور وہیں اسے موت آ گئی۔ موت کے چند دن پہلے کی اس کی ایک تصویر ہے جس میں وہ دیوار کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ لگتا ہے۔ کچھ سوچ رہا ہو لیکن جب دیوار پر نظر پڑتی ہے تو وہاں لکھا ہے۔

Still it moves۔

بیشک مجھے مار ڈالو لیکن زمین اب بھی گھوم رہی ہے۔ یہ لوگ روشنی کے مینار ہیں جو اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہمیں چاند ستاروں پر قدم رکھنے کا راستہ دکھا گئے ہیں۔ آج اس کی روشنی میں انسان کا علم اور تحقیق کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن ہم مسلمانوں کے قدم زمین سے نہیں اٹھ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments