بھینس کے آگے بین بجالی جائے


چین کے شہر ووہان میں کورونا نے تباہی مچا دی، کورونا فلو کی طرح کا وائرس ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، کورونا خطرناک وبا ہے، اٹلی میں کورونا سے اموات بڑھ رہی ہیں ہمیں لاک ڈاؤن کرنا ہوگا، امریکہ جیسے ملک نے لاک ڈاؤن کھول دیا ہم کیسے لاک ڈاؤن جاری رکھ سکتے ہیں۔ ملک میں سمارٹ لاک ڈاؤن جاری ہے۔ ڈاکٹر کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ڈاکٹر (محاذ جنگ سے ) ہڑتال پہ چلے گئے۔ اپریل کے آخر تک پچاس ہزار مریض ہوجائیں گے، اتنے مریض (کیوں ) نہیں جتنا سوچا تھا۔

کورونا نے ہر صورت پھیلنا ہے۔ ایک دن میں اسی اموات ہو گئیں احتیاط کرنا ہوگی، کل سے پبلک ٹرانسپورٹ کھول رہے ہیں، لوگ گھروں تک محدود رہیں، سیاحتی مقامات کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کون سوچ سکتا ہے کہ کوئی سلجھا انسان ایسی الجھی باتیں بلاناغہ کر سکتا ہے لیکن یہ الجھی باتیں حکومتی ذرائع سے آئیں تو پریشانی اور زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تو ہیں سرکار کی باتیں کہ گل ساری سرکار دی اے، لیکن سرکار کی عوام بھی کچھ کم نہیں

لکھنے کچھ اور بیٹھی تھی لیکن سوچا نہیں تھا کہ آج کا کالم دوسروں کے جملوں سے ہی مکمل ہو جائے گا، اور مجھے کالم لکھنے کی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ کام تو ویسے بھی جوان کی موت ہے اور ہمارے ہاں تو پچاس کے اوپر کے لوگ جوانی کا دعوی کرتے ہیں اور پچاس سے نیچے والوں کو تو بچوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بچوں نے کیا کر لینا۔ جب ستر سال کے بزرگ خود کو جوان کہیں، اور بنا ماسک اپنی منہ زور جوانی کو ہجوم میں ثابت کرنے پہ تلے ہوں تو بچے تو پھر نادان ہیں وہ کب کچھ سمجھیں گے، ویسے بھی اس قوم کو سمجھانے سے بہتر ہے بھینس کے آگے بین بجا لی جائے۔

ہم لوگ ایک ہی وقت میں دو دو کام کر رہے ہیں۔ ہم منکرین کورونا بھی ہیں اور ماہرین کورونا بھی۔ کورونا کے تیر بہدف نسخے بھی اس نیک قوم نے پاکستان آمد سے قبل ہی دریافت کر لیے تھے۔ جبکہ پکے مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا یہ ایمان بھی تھا کہ کورونا حرام کاموں سے قربت اور حلال خوراک سے دوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور سب اس پر صدق دل سے ایمان رکھتے تھے۔ میرے ایک دو عزیز مبتلائے کورونا ہوئے اور اہل علاقہ سے کچھ برگزیدہ اہل ایمان کورونا کی وجہ سے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تو میں ان کے حلال کاموں پہ امپائر (مولوی کے فتوے ) کی انگلی کے اٹھنے کی منتظر رہی۔

کورونا ڈرامہ ہے، کورونا سے مرتے کسی کو نہ دیکھا، کورونا مجھے کیوں نہیں ہوتا، دنیا کورونا کا رویہ سمجھنے میں لگی ہے اور ہم کورونا جھوٹ ہے ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف، اس جری قوم نے کورونا سے جتنا انکار کیا ہے ایک بار تو خدا بھی سوچ میں پڑ گیا ہوگا کہ کہیں کورونا سچ میں افواہ تو نہیں۔ حیرت ہے کہ منکرین کورونا ہی اس مشکل وقت میں آگے آرہے ہیں اور طبی ماہرین کو پچھاڑتے اس کا علاج دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔

ہم ایسی بہترین قوم ہیں کہ کورونا سے انکاری بھی ہیں اور اس کے علاج کے لیے کنویں میں بانس بھی ڈالے بیٹھے ہیں۔ کبھی منکرین کورونا ہوتے دلیرانہ گھومتے ہیں تو کبھی ماہرین کورونا بنے اس کے علاج دریافت کرتے ہیں۔ یہ قوم ماسک پہنتی بھی نہیں اور یہاں ماسک بیچنے والوں کی کمی بھی نہیں۔ اس عظیم قوم کو اگر ماسک پہننے پہ مجبور کیا جائے تو یہ قوم ماسک اپنے منہ پہ چڑھا تو لیتی ہے لیکن بات سننے اور کرنے کے لیے ماسک منہ سے ہٹا لیتی ہے۔

ابھی تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سنا مکی قہوہ کورونا کی بہترین دوا ہے۔ یہ قہوہ کوئی دو سو روپے کلو بھی نہیں خریدتا تھا اب وہی قہوہ دو ہزار روپے کلو بک رہا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اس کو خرید رہے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی اگر یہ قہوہ سچ میں کورونا مرض کے لیے بہترین موثر دوا ہے تو اس کو کس سن عیسوی میں دریافت کیا گیا ہوگا اور کیا کورونا چودہ سو سال پہلے کا مرض ہوگا؟ اور اگر سنا مکی ایک بہترین دوا ہے تو اس نسخہ کو اب تک یورپ اور امریکہ کی طبی تحقیقاتی اداروں کو بیچا کیوں نہیں گیا۔

میرے ایک جاننے والے شروع شروع میں اول نمبر کے کورونا کے انکاری تھے لیکن جونہی لاک ڈاؤن ہوا تو مارکیٹیں بند ہونے سے گھر میں کورونا کے دم کا کاروبار کھول لیا، اسی دم کی بدولت اپنے دم بھی کورونا کے حوالے کر کے کورونا کو پیارے ہوچکے ہیں۔ پیچھے ان کے وارثان نے پیر کورونا والا کے نام سے دربار بنالیا ہے، جس سے وبا کے دنوں میں روٹی روزی کا بہتر وسیلہ بن گیا ہے

جو قوم اتنی سمجھدار اور بہادر ہو اس پر حکمران بھی تو ویسے ہی مسلط ہوں گے۔ میرا حکومت پہ تنقید کرنا بنتا نہیں کہ تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ عام آدمی بڑے آرام سے حکومت کے ہر کام میں تنقید کر لیتا ہے جنھیں ککھ پتہ نہیں ہوتا وہ بھی میری طرح اپنا لچ تلنے آ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جنھیں سب پتہ ہے وہ بھی کام کرنے کی بجائے صرف لچ ہی تل رہے۔ وبا کے ان دنوں میں حکومت اور عوام دونوں ’ایک پیج‘ پر ہیں دونوں غیر سنجیدہ ہیں، دونوں بھانڈ بنے ہوئے ہیں، عوام احتیاط نہیں کرنے کی مشق کو دہرا رہی ہے تو حکومت ”تم جانو تمھارا کام“ کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ جس قوم کے حاکم غربت کی مثال کے لیے انتہائی غریب ممالک کی مثالیں لے آئیں اور امیر ایسے کہ شاپنگ کے لیے دوبئی اور تھائی لینڈ جا پہنچیں، جو مثالیں مہاتیر محمد کی دیتے ہوں اور فالو ٹرمپ کو کرتے ہوں، ایسے لا ابالی حکمرانوں کے عوام سے دانشوری کی توقع کیسے اور کیوں کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments