خدا کے دفتر کی کچھ فائلیں


گاؤں میں صبح اٹھتا ہوں۔ آنکھیں جھپک کر یقین حاصل کر لیتا ہوں کہ ایک دن اور روشن ہوا۔

دروازے سے نکلتے ہوئے دیوار کے ساتھ گلی میں ہمارے گھر کے باہر ایک پلاسٹک کا پائپ کنکریٹ کی دیوار سے۔ یہی کچھ چار انچ باہر نکلا ہوا ہے۔ گھر کا آلودہ پانی اس کی تھوتھنی سے دن بھر بہتا ہی رہتا ہے۔ نتھنوں سے لٹکتی کائی پر ننھے بچے کی رالوں کا گماں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ مجھے لگتا ہے یہ اس پلاسٹک کے پائپ کے لیے ایک بوریت سے بھرپور کام ہو گا۔ لیکن ایک دن نظر پڑی کہ اس کی گردن کے پاس سے کنکریٹ میں سے ہی ایک ننھا سا پودا بھی نکلا ہوا ہے۔ اس کے قامت کا بیشتر حصہ زمین کے متوازی ہے پھر کہیں چھاتی سے آگے جا کر وہ اپنا سر آسماں کی جانب کر لیتا ہے۔ میں گھر سے نکلتے ہی اس بے جوڑ رشتے کو دیکھتا ہوں۔ پائپ اپنی تھوتھنی سے آلودہ پانی اگلتا رہتا ہے۔ نہ بھی اگل رہا ہو تو رالیں بہتی رہتی ہیں۔ اور اس کی بغل میں ننھا پودا وقت گزاری کا ساماں پیدا کرنے کے لیے جھومتا رہتا ہے۔ گلی میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بے معنی ہیں۔ لیکن میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں تو آنکھوں سے مسکراہٹ بھرا بلبلہ اس بے جوڑ رشتے پر پھینکتا جاتا ہوں۔

اماں جہان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ عمر 90 سال ہے۔ جب 30 سال کی تھیں تو بیوہ ہو گئیں۔ 60 سال کا درد ہم قامت کے ریزے کیا جانیں۔ یہ علم ہے کہ دانش ان کی آنکھوں اور جملوں سے ایک ہی وقت میں ابلتی رہی۔ زندگی بھر ابلتی ہے۔ مقامی محاورے و ترکیبات کو ان کی دہلیز پرسر بہ زانو دیکھا ہے۔ دیہی دانش کے غالب حصے کو ان کے تکیے کے نیچے دہرا پایا ہے۔

ڈھوک پر جاتا ہوں۔ وہ کھیت کہ جہاں دادا نے گھومتی زمین کے سنگ 70 سال پسینہ بہایا دیکھتا ہوں۔ ان مٹی کے ڈھیلوں میں کہیں اس سوڈیم کلورائیڈ کا نشاں نہیں ملتا جو کسی وقت دادا کے جسم کا حصہ رہا ہوگا۔ سوڈیم کلورائیڈ کے وہ ایٹم اس وقت کہاں ہوں گے؟ فرصت دماغ ہو بھی تو جواب کیسا مشکل ہے۔

اپنی ڈھلتی عمر کو دیکھنے کے لیے مجھے آئینے کی ضرورت کبھی نہیں رہی۔ اپنے زوال عمر کے حساب کتاب کے لیے والد کے ماتھے کی جھریاں گن لیتا ہوں۔

امی نے آج جو کپڑے پہن رکھے تھے ان میں بنفشی رنگ غالب تھا۔ ہمارے صحن میں بنفشی رنگ کے پھول بھی کھلے ہوئے ہیں۔ وہ ایک دو بار زور سے ہنسیں تو میری نگاہ ان کے کپڑوں سے ہوتی ان بنفشی پھولوں تک گئی۔ شام سمے جب ہوا خنک ہو چلی تھی اور ہم گھر والے صحن میں بیٹھے تھے اس وقت بنفشیت کا راج تھا۔

بابا محرم ہمارا پڑوسی ہے۔ کرب ناک تنہائی کا شکار ہے۔ زندگی بھر ہل چلاتا رہا۔ پرانے وقتوں کے اعتبار سے صاحب علم شمار ہوا۔ جانوروں کی نفسیاتی باریکیوں سے کاشت کی نامیاتی تفصیلات تک سب علوم کا ماہر آج تنہا ہے۔ جنات کی کہانیوں سے گاؤں کی جہاں زادیوں اور حسن کوزہ گروں کی محبت کا گواہ آج قید ہے کہ گھر کے اندر سے کنڈی نہ لگائی جائے تو رات کے پچھلے پہر باہر نکل جاتا ہے۔ اس کی نظر بے حد کمزور ہے لیکن وہ چلتا رہتا ہے اور پھر دن چڑھنے کے بعد کہیں تلاش کرنے والوں کو کسی ویرانے میں ملتا ہے۔

آج عمر (چار سال کا بیٹا) کو موٹر سائیکل پر بٹھایا۔ جیسے ہی بائیک چلی تو کہنے لگا، ’یہ موٹر سائیکل بے وقوفی تو نہیں کرے گا‘ پھر موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھا مجھے دیکھنے کی کوشش کرتا یہ ننھا خود رائے کہنے لگا، ’میرا خیال ہے ایسا نہیں ہو گا۔ کیونکہ موٹر سائیکل کا منہ نہیں ہے۔ بے وقوفی وہ لوگ کرتے ہیں جن کا منہ ہوتا ہے‘ میرے پاس اس بقراط کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم ہنس دیے ہم چپ رہے۔

صفی دوست ہے۔ اس کا اکلوتا بیٹا چاند رات کو موٹر سائیکل سے گرا۔ ابھی تک مکمل ہوش میں نہیں آیا۔ 20 دن گزر گئے۔ اس کے سر کے اندر اربوں نیورانز اپنی جگہیں درست کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر آئے دن بہتری کے آثار نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن ریستان وقت پر صفی اور اس کی بیوی کے دلوں کا کرب نشان چھوڑ جائے گا۔

دلی خواہش ہے کہ پاس خدا ہو۔ اور خدا کا ایک دفتر ہو۔ اور دفتر میں فائلیں ہوں جن پر سرورق پر موضوعات لکھے ہوں۔ ۔ ۔ پلاسٹک کا پائپ اور پودے کا بے جوڑ تعلق، اماں جہاں کا سہا درد، وقار کے دادا کے جسم سے نکلے سوڈیم کلورائیڈ کا کھاتہ، زوال عمر کا حساب آئینہ کیا لازم ہے، بڈھیال گاؤں کے ایک گھر میں شام سمے اتری بنفشیت، بابا محرم، ایک ہی ماحول کا ہیرو اور زیرو، عمر مہ یار کی بارے موٹر سائیکل کے ایک خوش گمانی، ریستان وقت پر صفی کے کرب کے دھبے

یہ سارا ڈیٹا کس قدر اہم ہے۔ ۔ ۔
خدا، دفتر اور ان فائلوں کا محفوظ ہونا کس قدر ضروری ہیں۔
اگر یہ سب نہیں ہے تو زمیں کی محوری و سورج کے گرد گردش کیسی بے کار تکرار ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments