جسٹس فائز عیسیٰ کیس: ’غیر متعلقہ باتوں میں قرآن پاک کا حوالہ نہ دیں‘


پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کے بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے کہا ہے کہ وہ ’غیر متعلقہ باتوں میں قرآن پاک کا حوالہ نہ دیں۔‘

سپریم کورٹ میں جمعے کے روز اس صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت 10 رکنی بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کی۔

سماعت کے دوران وفاق کے وکیل فروغ نسیم، جو وزارت قانون سے استعفیٰ دے کر یہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں، نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کی بیوی کی جائیداد کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے قرآنی آیت کا حوالہ دیا کہ ’مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔‘

اس پر بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں‘ جس کا وفاق کے وکیل جواب نہ دے سکے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔‘

جسٹس قاضی امین نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں۔‘ اُنھوں نے کہا کہ یہ آیت اس کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں؟‘

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ ’کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں اور یہ کیسے فرض کرلیا جائے کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا؟‘

اُنھوں نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیسے فرض کرلیا گیا اگر خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا۔‘ اُنھوں نے کہا کہ کیا خاتون جج کا خاوند پینشن نہیں لے سکتا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ’قانون میں جج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’وفاقی شرعی عدالت کے مطابق میاں بیوی ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی جائیداد کے محافظ ہوتے ہیں‘ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ بات تو درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی کی حمایت کرتی ہے۔‘ اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار نے اہلیہ کے اثاثوں پر پردہ نہیں ڈالا۔

بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’قرآن پاک کو ہم نے ادب سے پڑھنا ہے لہذا وہ غیر ضروری اور غیر متعلقہ باتوں میں اس کا حوالہ نہ دیں۔‘

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’کتنی پڑھی لکھی بیویاں ہوتی ہیں جن کو شوہروں کی جائیدادوں کا علم بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کی دوسری بیوی کا بھی پتا نہیں ہوتا۔‘

وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جبرالٹر کے چیف جسٹس کی بیوی وکیل تھیں اور ان کی بیوی نے بار کے ساتھ بدتمیزی کی اور جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو چیف جسٹس کو گھر جانا پڑا۔‘

اُنھوں نے کہا ’لیکن یہاں پر تو کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’انڈین جج کے خلاف بھی جائیداد ظاہر نہ کرنے پر کارروائی ہوئی تھی اور انڈین جج دینا کرن نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح درخواست دائر کی تھی۔‘

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس مقدمے میں جج اور اس کی بیوی کی جائیداد بے نامی دار تھیں اور یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہاں تو جائیداد ظاہر ہے اور کوئی جائیداد چھپائی نہیں گئی۔‘

جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ جو حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ اس سے متعلق نہیں ہے۔‘

بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پھر آپ یہی ثابت کریں کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جائیدادیں بے نامی دار ہے۔‘

جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ ’کیا کوئی قانونی تقاضہ ہے جو جج کو مجبور کرے کہ وہ بیوی کے اثاثوں کا جواب دہ ہے۔‘

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اس پورے معاملے میں درست قوانین کا استعمال ہی نہیں کیا۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں ججز کا ٹرائل بھی کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ صرف ضابطے کی کارروائی کا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر بیوی اور بچوں کی ناقابلِ وضاحت جائیدادیں ہوں تو سوال کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ اُنھوں نے اس ریفرنس میں جائیداد کو ناقابل وضاحت کیسے کہہ دیا۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ناقابل وضاحت کے بجائے غیر ظاہر شدہ کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔

بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے اور اس مقدمے میں آپ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جسٹس قاضی فائز عیسی سے ثابت کرنا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل کے سامنے سوال رکھا کہ ’کیا جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں, اور اگر ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں تو پھر اہلیہ زیر کفالت کیسے ہیں؟‘

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق ’جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ٹیکس کا قانون تو تمام شہریوں کے لیے ہے‘ جس پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔

بینچ میں موجود جسٹس یحیٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ’کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا ان کی اہلیہ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا؟‘

فروغ نسیم نے کہا کہ جج سے جائیدادوں کا پوچھنے کے لیے مناسب فورم کونسل ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل جائیداد کے بارے میں ہی تو پوچھ رہی ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جج کا احستاب نہیں ہوسکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے۔

فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ڈسپلنری ہوتی ہے ٹیکس کی نہیں۔۔۔ اس ریفرنس میں ٹیکس ریٹرنز کا معاملہ محض ایک جزو ہے۔‘

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون کے مطابق معاملہ بہت آسان ہے اور اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے۔

جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں تو پھر اس کے بعد ہی منی ٹریل کا سوال ہوگا۔

وفاق کے وکیل نے کہا کہ وہ ’آئندہ سماعت پر ججز کے خلاف دائر ریفرنس میں بدنیتی اور آثاثہ جات ریکوری یونٹ یعنی اے آر یو پر دلائل دیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان جائیدادوں کے بارے میں شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نکتہ نظر پر بھی دلائل دیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آئندہ سماعت ویڈیو لینک کے ذریعے ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ کچھ ججز اسلام آباد میں نہ ہوں۔

ان درخواستوں کی سماعت 15 جون تک ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاق کے وکیل سے تحریری دلائل بھی طلب کیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp