جون ایلیا خانیوال میں


سٹیزنز فورم، خانیوال کی ایک ادبی، غیر سیاسی، سماجی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد لوگوں میں سماجی شعور پیدا کرنا اور ماڈرن سوک لائف کی طرف، اپنی مدد آپ کے تحت راغب کرنا ہے۔ تنظیم نے خانیوال میں اسی اصول کے تحت مرکزی قبرستان کی چار دیواری اور تین ایسے پارک ڈویلپ کئیے ہیں جو حکومتی اداروں کی بے توجہی کا شکار تھے۔ زلزلہ زدگان کے لیے سامان کے تین ٹرک، سیلاب زدگان کے لیے ادویات کی کھیپ بھجوانے کے علاوہ بہت سے ادبی پروگرام، مشاعرے اور مذاکروں کا اہتمام کرا چکی۔ جون ایلیا کے ساتھ ایک شام کا اہتمام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جو بعد ازاں تاریخی حیثیت اختیار کر گئی کہ جون بھائی کا جنوبی پنجاب کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ قرار پایا۔

جون صاحب کے حوالے سے ہمارے اندر ایک سنسناہٹ تھی، ایک بڑا شاعر اور بہت بڑا انسان، ہمارے گھر آ رہا تھا۔ جون بھائی نے آنے کا اقرار بھی کر لیا تھا، دو شرائط کے ساتھ، انیق احمد مضمون پڑھے گا اور میرے علاوہ کوئی نہیں پڑھے گا۔ ہم نے پہلی شرط مان لی دوسری شرط کی نرمی پر جون بھائی خود آمادہ ہو گئے۔

پروگرام کے مطابق دو نشستوں کا فیصلہ ہوا۔ ایک نشست میں چند مقامی شعرا نے پڑھنا تھا اور دوسری نشست، چائے کے وقفے کے بعد بلا شرکت غیرے جون ایلیا کے سپرد کر دی گئی۔ جون سے پہلے انیق احمد نے جون کے فن پر گفتگو کرنی تھی۔ مقامی شعرا کی لسٹ بہت طویل تھی اور شارٹ لسٹ کرنا تھا۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد جون ایلیا کے ساتھ وقت گزارنا اور انہیں سننا مقصود تھا۔ اس لیے بہت سے شعرا کا نام کاٹ دیا۔ ایک دوست کہ مشاعروں اور شاعروں کے مزاج سے قطعی ناواقف تھے کہنے لگے ”بلا سب کو لیں، پڑھنے کا موقع اسے ہی دیں جس سے پڑھوانا مقصود ہو“ ۔

باقی شعرا کو سامعین کے طور پر بلا لیا جائے۔ یہ تجویز دینے والا اس بات سے قطعی طور ناواقف تھا کہ سامع شاعر پڑھتے ہوئے شاعر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ تو شاعر کو چھیڑنے والی بات ہوئی۔ مشاعرے میں بلائیں اور سننے پر محدود کردیں۔ جیسے کرکٹ کے کھلاڑی کو ٹیم میں شامل تو کر لیں مگر پورا میچ اسے باہر بٹھائے رکھیں یا کھانے کی میز پر پانچ مولوی بٹھا کر تین کو کھانا کھانے دیں اور دو کو کہیں ”بس آپ کھانے کی خوشبو پر گزارا کریں“

ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلی نشست میں ملتان کے مشہور شاعر اور ادیب جناب اسلم انصاری صاحب پڑھیں گے اور خانیوال سے قمر رضا شہزاد کے ساتھ دو اور شعرا جو مجھے اب یاد نہیں کیونکہ یہ دو دہائیاں پہلے کی بات ہے۔

شعرا کے بعد سامعین کی لسٹ بنائی گئی۔ ہم نے دعوت عام نہیں کی۔ نہ ہی یہ عام جلسہ تھا لہاذا مخصوص صاحب ذوق لوگ بلائے جانے تھے جن کی سلیکشن ایک دشوار گزار مرحلہ ثابت ہوئی۔ بہر حال پروفیسرز، ڈاکٹرز، وکلا اور جج صاحبان کے ساتھ ساتھ دوسرے اہل علم اور دانشور خواتین و حضرات کی طویل فہرست بن گئی۔ کاج کے وسیع لان میں فرشی نشست کا اہتمام تھا۔

خانیوال میں میں لوگ جون سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ انہی دنوں خانیوال میں تازہ تازہ عیسائی مسلم فسادات ہوئے تھے۔ شانتی نگر کا پورا گاؤں آگ کی نظر کر دیا گیا تھا۔ عیسائیوں کے گھروں پر لوٹ مار کی گئی تھی۔ یہ واقعہ ایک عیسائی کے توہین قرآن کرنے کی خبر سے ہوا تھا جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ جون کی انگریزی مشابہت کی بنا پر کچھ لوگ یہ سمجھے امریکی سفیر آ رہا ہے کیونکہ گزشتہ واقعہ کی وجہ سے یورپی سفرا عیسائی برادری سے اظہار یکجہتی کے لئے آ جا رہے تھے۔

ہم چونکہ خانیوال میں سول سوسائٹی کے نمائندہ بن چکے تھے اس لیے کچھ لوگ یہ بھی سمجھے کہ ہم کوئی میوزیکل شو کروانے جا رہے ہیں۔ جون کی حد تک ایک بات تو درست تھی۔ جون سفیر تو تھا مگر کسی ملک کا نہیں بلکہ ادب کا سفیر تھا اور عالمگیر سفیر تھا۔ وہ اردو کا بے تاج بادشاہ تھا۔ اردو اس کے گھر کی باندی، اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ”حکم میرے آقا“ کی منتظر رہتی تھی۔ اردو جون کے سامنے موم تھی جس کے وہ پتلے بنایا کرتا تھا۔

کچھ لوگ جون کو جانتے تھے بلکہ کچھ زیادہ ہی جانتے تھے۔ شعیب الرحمان اور کچھ اور دانشوروں کی رائے تھی ”یہ بابا ناچتا بہت ہے“ ۔ یوں شعر پڑھتے، ناچتے، جھومتے ایک بار سٹیج سے کود گیا تھا اور اپنا بازو تڑوا بیٹھا تھا۔ ہم نے چونکہ فرشی نشست کا اہتمام کیا تھا اس لیے ہمیں کوئی خوف نہیں تھا۔ شعیب الرحمان کی اس بات میں وزن تھا کہ جون عام لوگوں کی توقعات کے برعکس کہتا ہے اس لیے نقاد اس کی شاعری کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

جون کو کراچی سے ملتان بائی ایر اور ملتان سے خانیوال بذریعہ سڑک آنا تھا۔ ائرپورٹ پر طاہر حیدر واسطی نے انہیں خوش آمدید کہا اور پھول پیش کیے۔ طاہر واسطی ہمارے دوست، فورم کے سرگرم رکن، اسلامک کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی، اور ہمارے بہت ہی ملنسار دوست ہیں، آج کل لندن میں قانون کی پریکٹس کرتے ہیں۔ گاڑی خانیوال کی طرف رواں دواں تھی۔ باہر شدید گرمی تھی اور ملتان کی مشہور لو چل رہی تھی۔

جون بھائی نے گاڑی کا شیشہ کھول لیا تھا۔ ہم نے اپنی دانست میں جون بھائی کو بتایا باہر لو چل رہی ہے، شیشہ بند کر لیں۔ جون سفید کرتے میں ملبوس تھا، بڑے سرد لہجے میں خاموشی توڑتے ہوئے کہا ”اسی لو کے لئے تو ملتان آیا ہوں۔ میرا دل چاہ رہا ہے یہ لو میرا سینہ چیرتی ہوئی پار ہو جائے“ پہلی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ جون کی شاعری لوگوں کی سمجھ سے بالاتر کیوں ہے؟ راستے میں پوچھا، شاہ شمس کا مزار کدھر ہے؟ میں نے شاہ شمس سے ملنا ہے۔

گاڑی واپس ملتان کی طرف موڑ دی گئی اور سیدھی شاہ شمس کے مزار پر روکی گئی۔ جون بڑے تحیر کے عالم میں مزار کے اندر گئے، پھر مزار کے احاطے میں دو قبروں کے درمیان لیٹ گئے۔ یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے۔ کہیں ہم جون کو بلا کر غلطی تو نہیں کر بیٹھے۔ شدید گرمی اور لو نے برا حال کیا ہوا تھا۔ کافی دیر کے مراقبے کے بعد پسینے میں شرابور، آبدیدہ آنکھیں لئے اٹھے اور کہنے لگے شاہ شمس نے حکم دیا ہے ”ان کے کتبے کی اردو ٹھیک کی جائے“ کاغذ قلم منگوا کر تحریر لکھی اور مہتمم کے حوالے کر دیا۔

واپسی خانیوال تک خاموشی چھائی رہی۔ خانیوال کا سائن بورڈ پڑھتے ہی کہنے لگے طاہر! خانیوال کا نام کس نے رکھا۔ طاہر نے بتایا یہاں کے بڑے زمیندار جو ڈاہے خان کہلاتے ہیں، ان کے نام سے شہر خانیوال مشہور ہوا۔ آہستگی سے کہا ”خانیوال کے خ کا نقطہ اوپر سے نیچے لے آؤ“ یوں اپنے طور پر خانیوال کا نام جانی وال رکھ دیا۔ مزید کہا ”تم قصباتی لوگ شہروں کے نام بھی ایسے رکھتے ہو کہ ناموں سے ہی یقین ہو جاتا ہے، تم لوگ تکبر پسند ہو“ ۔ پھر ایک سوال داغ دیا ”تم بتاؤ اللہ نے دنیا کس بنیاد پر بنائی“ ؟ اس طرح کے سوال ہماری سمجھ سے بالاتر تھے، کوئی جواب نہ دے سکا۔ خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا ”محبت کے اظہار کے لیے“۔

جون بھائی گھر اترے تو چائے کا وقت ہو چکا تھا۔ بڑے اہتمام کے ساتھ چائے کی ٹرالی ان کے سامنے سجائی گئی۔ جون خاموش تھے۔ جب تیسری بار عرض کیا ”چائے بناؤں“ تو غصے میں بولے ”یہ دوزخ کا پانی تم پیو، مجھے تو ’آب کوثر‘ پلاؤ“ ۔ اب ان کے اس ’آب کوثر‘ کی تلاش میں گھوڑے دوڑائے گئے جو صحرا کا سینہ چیرتے ہوئے نکلے، ایک گھنٹے میں واپس آئے۔ جون ایک دن ہمارے مہمان تھے اپنا ’آب کوثر‘ ہی پیتے رہے۔
جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments