لڑکی تو بہت اچھی ہے بس ذرا۔۔۔


آریان آئے، ترک آئے، انگریز آئے اور ایسے آئے کہ گنگا اور سندھ کے درمیان بستے لوگ، جنہیں خدا نے گندمی حسن بخشا تھا، اپنے رنگ پر پشیمان ہوتے ہوتے اور صدیوں کے پہیے میں گھومتے، آج کی اس دکان تک جا پہنچے جہاں تیز کیمیائی کریمیں دس روپے کے ساشے میں بکتی ہیں۔

ان کریموں کے اشتہاروں پر بتدریج گوری ہوتی تصویریں ہمارے سماج و پہچان کے خالی برتن پر، جہالت کی آگ سے لگی کالک ہے۔ ٹی وی پر دوڑتی فلمیں یہ گیان بانٹتی ہیں کہ ایک پڑھے لکھے شخص کے لئے بھی معاشرے میں موجود مواقعوں کی تعداد اس کے رنگ پر منحصر ہے۔ کہ جاب دینے والا ڈگری اور قابلیت کو لات مارتے ہوئے محض رنگت پر لوگوں کو چنتا ہے۔ کہ کسی محفل میں آنکھیں اور کان اسی طرف متوجہ رہتے ہیں جس طرف اجلا چہرہ سجائے کوئی بیٹھا ہو۔ کہ رائے بھی اسی کی اہم جو گورے ہاتھوں سے لکھتا ہو۔ لہذا اس قلیل زندگی میں اور کوئی معرکہ ماریں نا ماریں، آپ کو کفن میں لپٹے جانے سے پہلے اس کی طرح سفید ضرور ہونا چاہیے!

یہ رویہ صرف اسی سرمایہ دار تک ہی موقوف نہیں جنہیں فیئرنس کریمیں بیچ کر اپنا پیٹ بھرنا ہے، بلکہ یہ گلی گلی، گھر گھر، بات بات پر چھایا ہوا ہے۔ ماں حاملہ ہوتی ہے تو بڑی بوڑھیاں سو ٹوٹکے کان میں پھونک ڈالتی ہیں جن پر عمل کر کے ایک سفید بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پیدائش پر بچے کی صحت کے بعد دوسری خبر یہ دی جاتی ہے کہ ”ماشا اللہ جی، خوب گورا چٹا ہے“ ۔ اور اگر بیچارہ بیان کردہ حلیہ پر پورا نا اترتا ہو تو ہر مبارک دینے والا ایک مشورہ رنگ بہتر کرنے کے بارے میں بھی ضرور دیتا جاتا ہے۔ پھر بچپن سے جوانی تک، وہ بچہ جس جس مرحلے سے گزر کر ذہنی مرض اور احساس کمتری کے حبس زدہ خول میں پہنچتا ہے، وہ ایک الگ کہانی ہے۔

رنگ پرستی کی یہ چادر ہمارے رویوں کو ہی نہیں، لفظوں کو بھی جکڑے ہے۔ رنگ ”صاف“ کر لو کا مطلب یہی ہے کہ گہرا رنگ گندگی کی علامت ہے، رنگ ”دبنے“ کے معنی شخصیت کے دبنے کو ظاہر کرتے ہیں اور رنگ ”بہتر“ کرنا، گورے رنگ کو ترقی سے تشبیہ دیتا ہے۔ ”کالو“ اور ”کلو“ گالی کے زمرے میں استعمال ہوتے ہیں۔ رنگ ”نکھرنا“ بھی گورے ہونے کے مترادف کے طور پر بولا جاتا ہے اور کالے رنگ والے کو، چاہے وہ پوری کمپنی کا مالک ہی کیوں نا ہو، ”چوڑا“ ہی کہا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس بحث سے بھی پیشتر کہ ایسے مشوروں میں یہ مخصوص لفظ استعمال ہونے بھی چاہیں یا نہیں، سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ مشورے دیے بھی جانے چاہئیں یا نہیں؟

رنگ کی یہی تفریق ہر سوچ اور رواج کے راستے سے ہوتے ہوئے اسکولوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کلاس میں بد ترین تضحیک کا موضوع اکثر نشانہ بننے والے کا رنگ ہی ہوتا ہے۔ سالانہ شو میں ڈرامے یا ٹیبلو تیار کرتے وقت گوری لڑکیوں کو پریوں اور شہزادیوں کے کردار دیے جاتے ہیں جب کہ گندمی یا کالے رنگ کے بچے آپ کو ان کے پیچھے پینٹ زدہ چہرے لئے درخت یا گھاس بنے نظر آئیں گے۔ ایسے اسکولوں سے نکلنے والی فوج جوان ہو کر ٹی وی یا ڈرامے میں بھی سفید کرداروں کو دیکھنا پسند کرتی ہے لہذا پروڈیوسر بھی گوری اداکاراؤں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح رنگ پر مبنی امتیاز کا ایک چکی چل پڑتی ہے جسے سب فرد حسب توفیق دوڑاتے دوڑاتے اس نہج پر لے آتے ہیں جہاں ایک شخص یہ ذلت مزید برداشت کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو بیکار گردانتے ہوئے دنیا کو خیر باد کہہ جاتا ہے۔

عورتوں کے لئے تو یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ مرد اگر بہت جان مار کر دولت یا نام کما لے تو وہ اس دلدل سے نکل سکتا ہے جبکہ عورت اپنی تمام تر قابلیتوں، صلاحیتوں کے باوجود، رشتہ لینے والوں سے محض یہی سننے کے لئے رہ جاتی ہے کہ جی ”باقی سب تو ٹھیک ہے بس رنگ تھوڑا۔ ۔ !“ ۔ اور قابل قبول ہونے یا نا ہونے کا یہ ”تھوڑا“ سا فرق اس کی زندگی میں بہت سا فرق ڈالتا جاتا ہے۔ آپ چاہے کروڑوں خرچ کر کے خواتین کو علم دانش اور ہنر کی اہمیت کے سبق پڑھا لیں، جب تک وہ رنگ پر معاشرے سے مسترد ہوتی رہیں گی، وہ یہ یقین نہیں کر پائیں گی کہ پڑھنا، بناؤ سنگھار سے اہم تر ہے! وہ کتابیں ادب یا تحقیق کے لئے نہیں، رنگ کے ٹوٹکوں کے لئے ڈھونڈیں گیں اور وہ شمع جسے جہاں تک میں جلنا تھا، بیوٹی پارلر میں محدود ہو کر مر جائے گی!

کہانی تو بہت طویل ہے لیکن حقیقت بہت مختصر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے رنگ کا دار و مدار اس کی جلد میں موجود میلانین (malanin) کے تناسب پر ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی مادہ ہے جو جلد کو سورج کی تیز شعاوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن جب ہزاروں برس کے ارتقا سے آئی یہ مفید صلاحیت آپ کی پہچان بن کر مسلسل ہر کام، ارادے اور موقعے کی راہ میں آ کھڑی ہوتی ہے تو بہتر سے بہترین کی اس دوڑ میں مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ مغرب میں لوگ اس سوچ سے پر سر پیکار ہیں اور مشرق عادتاً یہ نظریہ مستعار لینے کا منتظر ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments