یوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 9)۔


عالمی بنیادی مدد کیا ہے؟

عالمی بنیادی مدد کا مطلب انسانوں کی بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کرنا ہے، تاہم اس امر کے لیے کوئی قابل قبول تعریف نہیں ہے۔ خالصتاً بیالوجی کے نقطہ نظر سے ایک سیپئن کو زندہ رہنے کے لیے پندرہ سو سے دو ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ کی طلب عیاشی ہے۔ تاہم تاریخ میں ہر ثقافت نے اس بنیادی حیاتیاتی ضرورت سے زائد خواہشات کو بھی بنیادی ضرورت کے زمرے میں شامل رکھا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں چرچ کی خدمات کو کھانے پینے سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے آپ کے جسم کی بجائے آپ کی ابدی روح کا خیال رکھا تھا۔ آج کے یورپ میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اب انٹرنیٹ تک ہر مرد، عورت اور بچے کی رسائی ضروری ہے۔ اس کرہ ارض پر موجود ہر شخص کو (ڈھاکہ کی طرح ڈیٹرائٹ میں بھی) بنیادی مدد فراہم کرنے کے لیے اگر 2050 میں متحدہ عالمی حکومت گوگل، ایمیزون، بیدو اور ٹین سینٹ کو ٹیکس دینے پر راضی کرلیتے ہیں تو وہ دو الفاظ ’بنیادی‘ اور ’ضروریات‘ کے فلسفہ کو کس طرح سے سلجھا پائیں گے؟

مثال کے طور پر بنیادی تعلیم میں کیا کیا شامل ہے؟ کیا بنیادی تعلیم میں محض لکھنا اور پڑھنا سیکھنا کافی ہے یا پھر اس میں کمپیوٹر کوڈ مرتب کرنا اور وائلن بجانا بھی شامل ہے؟ اسی طرح بنیادی تعلیم کے مطابق اسکول کی چھ سال کی تعلیم کافی ہے یا پھر پی ایچ ڈی تک کی تعلیم بھی اس کا حصہ ہونی چاہیے؟ اس کے علاوہ صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر 2050 تک میڈیکل کے میدان میں ہونے والی ترقی اس قابل ہو جائے کہ وہ عمر بڑھنے کے عمل کو سست کردے اور نمایاں طور پر انسانی زندگی کو طویل کردے تو کیا یہ نیا علاج اس کرہ ارض پر موجود دس بلین لوگوں کو دستیاب ہوگا یا محض چند بلین لوگ اس سے مستفید ہو سکیں گے؟

اگر مستقبل میں بائیو ٹیکنالوجی والدین کو اپنے بچے اپ گریڈ کرنے کے قابل بناتی ہے تو کیا یہ ایک بنیادی انسانی ضرورت سمجھی جائے گی یا پھر ہم انسانوں کو مختلف بیالوجیکل ذات پات میں تقسیم ہوتا ہوا دیکھیں گے؟ کیا امیر افراد (سپر ہیومن) ایسی سہولیات سے مستفید ہوں گے جو غریب ہوموسیپئن کے لیے بالکل دستیاب نہ ہوں گی؟

جس طرح بھی آپ ’بنیادی ضروریات‘ کی تعریف کا تعین کر لیں، لیکن جب آپ سب انسانوں کی یہ بنیادی ضروریات مفت فراہم کردیتے ہیں تو ان کی قدر نہیں کی جائے گی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ان بنیادی ضروریات کے لیے خوفناک سماجی مقابلہ اور سیاسی جدوجہد شروع ہو جائے گی۔ آپ ذرا خود کار گاڑیوں، ورچوئل ریالٹی پارک تک رسائی یا بائیو انجینئرنگ کی مدد سے انسانی عمر میں ترقی کے بارے میں سوچیں۔ ان بیان کردہ عیاشیوں تک ایک عام انسان کی دسترس کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں امیروں (ٹین سینٹ منیجر اور گوگل شیئر ہولڈرز) اور غریب لوگوں (عالمی بنیادی آمدنی پر انحصار کرنے والے ) کے درمیان فاصلہ نا صرف بہت زیادہ بڑھ جائے گا بلکہ ناقابل عبور خلیج کو جنم دے گا۔

حتی کہ اگر 2050 میں کوئی عالمی تعاون اسکیم غریب لوگوں کو آج سے بہتر صحت اور تعلیم کی سہولیات مہیا کر دیتی ہے تو وہ اس کے باوجود بھی عالمی عدم مساوات اور معاشرتی میل جول کی کمی کے بارے میں سخت ناراض ہوسکتے ہیں۔ لوگ یہ محسوس کریں گے کہ ان کے خلاف یہ نظام دھاندلی کا شکار ہے اور حکومت صرف انتہائی امیر لوگوں کی خدمت کرتی ہے اور آئندہ بھی ان کے اور ان کے بچوں کے لیے بدتر ہوگا۔

ہومو سیپئن اطمینان سے بیٹھنے کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں۔ انسانی خوشی کا دار و مدار ہمارے معروضی حالات پہ کم اور ہماری توقعات پر زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم توقعات ارد گرد موجود حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان توقعات کے تشکیل پانے میں دوسرے لوگوں کے حالات بھی شامل ہوتے ہیں۔ جب چیزیں بہتر ہوتی ہیں تو اس سے توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں حالات میں ڈرامائی بہتری بھی ہمیں پہلے کی طرح غیر مطمئن چھوڑ سکتی ہے۔ اگر عالمی بنیادی مدد کا مقصد 2050 میں عام افراد کے معروضی حالات کی بہتری ہے تو اس منصوبے کی کامیابی کے کافی زیادہ امکان ہیں۔ لیکن اگر اس کا مقصد موضوعی لحاظ سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کرنا ہے اور معاشرتی بے چینی کو روکنا ہے تو اس منصوبے کے ناکام ہونے کے زیادہ امکان ہیں۔

اس منصوبے کے مقاصد کو حقیقت میں حاصل کرنے کے لیے کھیلوں سے لے کر مذہب تک کچھ معنی خیز عناصر کی مدد شامل کر لینی چاہیے۔ شاید بیروزگاری کی دنیا میں مطمئن زندگی گزارنے کا اب تک سب سے کامیاب تجربہ اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ یہاں تقریباً پچاس فیصد انتہائی راسخ العقیدہ یہودی مرد کبھی کام نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کو مقدس صحیفہ کے مطالعہ اور مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے وقف کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے اہل خانہ بھوک سے نہیں مرتے ہیں، کیونکہ ان میں سے اکثر کی بیویاں کام کرتی ہیں۔ دوسری طرف حکومت انہیں فراخ دلی سے سبسڈی اور مفت خدمات مہیا کرتی ہے۔ جس کی بنا پر انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کی کمی نہیں رہتی ہے۔ اس لیے عالمی بنیادی مدد کا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس کا تصور واضح کر لینے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ انتہائی راسخ العقیدہ یہودی غریب اور بیروزگار ہیں، مگر بار بار کیے گئے سروے رپورٹوں کے مطابق یہ یہودی مرد معاشرے کے کسی بھی دوسرے طبقے کے مقابلے میں اعلی سطح کی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ اس امر کی بنیاد ان کے مضبوط معاشی بندھن اور انہیں اپنے صحیفوں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے سلسلے میں ملنے والی گہری معنویت میں ہے۔ ٹیکسٹائل فیکٹری میں پسینے سے شرابور محنت کش طبقے کے افراد سے زیاد خوشی، مشغولیت اور بصیرت وہ یہودی مرد حاصل کرتے ہیں جو ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ’تلمود‘ پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ پر مسرت زندگی کے عالمی جائزوں میں اسرائیل تقریباً سب سے اوپر ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ سروے میں شامل آبادی کا بڑا حصہ انہیں بیروزگاروں پر مشتمل ہے۔

سیکولر اسرائیلی اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ راسخ العقیدہ یہودی معاشرے کی فلاح میں کوئی خاص حصہ شامل نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ دوسرے لوگوں کی محنت کا صلہ کھاتے ہیں۔ سیکولر اسرائیلیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان انتہا بنیاد پرستوں کا طرز زندگی غیر مستحکم ہے، کیونکہ ان لوگوں کے ہر خاندان میں اوسطاً سات بچے ہوتے ہیں۔ جلد یا بدیر، ریاست اتنے زیادہ بیروزگار لوگوں کی مدد نہیں کرسکے گی۔ ان بنیاد پرستوں کو کام پر جانا ہوگا۔

تاہم یہ پھر بھی الٹ ہوگا، کیونکہ روبوٹ اور مصنوعی ذہانت لوگوں کو جاب مارکیٹ سے باہر نکالتی ہے۔ اس لیے ان انتہائی راسخ العقیدہ یہودیوں کو ماضی کی فرسودہ چیز سمجھنے کی بجائے مستقبل کے ماڈل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام آرتھوڈاکس یہودی بن جائیں گے اور ’یشیوس‘ کے پاس جا کر ’تلمود‘ پڑھنے لگ جائیں گے۔ لیکن تمام لوگوں کی زندگیوں میں مقصد کی تلاش اور معاشرے کے لیے نوکری کی تلاش کو گرہن لگ سکتا ہے۔

اگر ہم مضبوط معاشرے اور بامعنی مشاغل کی مدد سے ایک عالمی معاشی معاشرہ ترتیب دے لیتے ہیں تو الگورتھم کی وجہ سے اپنی ملازمت کھو دینا واقعی ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اپنی زندگیوں پر کنٹرول کھو دینا ایک انتہائی خوفناک منظر کی مانند ہوگا۔ بڑے پیمانے پر پھیلی بیروزگاری اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی خوفناک بات اختیارات کا انسانوں سے الگورتھم کی طرف منتقل ہونا ہے۔ جو لبرل کہانی پر لوگوں کا باقی ماندہ اعتماد بھی تباہ و برباد کردے گا اور ڈیجیٹل آمریت کی راہیں کھول دے گا۔

اس سیریز کے دیگر حصےآٹومیشن کا انقلاب غریب ممالک کو تباہ کر دے گا؟بریگزٹ ریفرینڈم میں یہ کیوں پوچھا گیا کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments