چشم بینا کا سفر


ہم ماں، باپ اور بہن بھائی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں؛ اس کا احساس گواہیوں کے زمانے سے قبل ہو جائے تو تمام گواہیاں سچ ہوں اور گناہ کی جھولی خالی برتن جیسی پڑی رہے گی۔ بس ایسی صورت میں مالک جو چاہے اپنی freewill سے اس کی بھرائی کر لے۔ ہم جو شکل اختیار کرتے ہیں، ہمارا ضمیر اور خیال بھی ان ہی کے سانچے میں ڈھلنے لگتا ہے۔ موجودہ دور ”کورونا دور“ کے نام سے تاریخ کے جدید ترین ابواب میں لکھا جائے گا۔ دنیا کی ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی کی یارڈ اسٹک سے ناپی جا رہی تھی یقیناً ہم بہت آگے بڑھ چکے ہیں اوریقین ہے کہ مزید آگے بڑھیں گے۔

عالمگیریت کی اس فضا نے سب کچھ صاف صاف دکھا دیا ہے ؛ اسباب اور نتیجے کے اس موجیبیت کے دائرے سے باہر ”بے اسباب“ مسبب لاسباب کا دائرہ (orbit ) بننے لگتا ہے۔ جسے خوف نہیں ”مر“ جانے یا فنا ہونے کا، ہم کائنات کو اپنے فہم، عقیدوں اور پیمانوں سے ناپتے رہے۔ آغاز کو بگ بینگ اور فنا کو عذاب سمجھتے رہے۔ دراصل یہ ہی سمجھ نا پائے کہ ”مہلت“ مغفرت کا پہلو ہے۔

اس نے کوویڈ 19 کو ہمارا استاد بنا کر بھیجا ہے ؛ وہ سبق جو سقراط اپنے شاگرد افلاطون کو نا دے سکا, وہ سبق جو افلاطون اپنے شاگرد ارسطو کو نا دے سکا جو یہ کرونا انسانوں کو دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ سو اس کا احترام کرنا اور سبق ہمیشہ کے لیے یاد رکھنے میں منفعت کی کائناتیں پوشیدہ ہیں۔

معصیت میں ماضی پر نظر ثانی کرنے پر مستقبل میں خوشخبری کی نوید ملتی ہے، مگر اسے جو اپنی زندگیوں میں ”توبہ“ کی app، download کر لیں۔ اب کوویڈ 19 کی وبا جو گھر گھر جا کر ہمیں پولیو کے قطرے پلانے والے رضا کاروں کی طرح اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ ہمارے ملک کے نامور کالم نگار، سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور سہیل وڑائچ بھی ان خوش بختوں میں سے ہیں جن کو تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اسoption کی آفر قدرت نے عطا کی ہے۔ سو سوچا کیوں نا ان کو ایک ”پریم پتر“ لکھوں۔

پیارے سہیل بھائی!

آج آپ کا کالم پڑھا، دل خوش ہوا کہ ابھی بھی پاکستان میں بہادر لوگ موجود ہیں اور یہ وہ ہیں جو انسانوں کی صف میں آچکے ہیں۔ میں بی ایس سی سے قبل مشرق، خبریں اور جنگ میں کبھی کبھی لکھا کرتی تھی۔ کبھی کبھی انٹرویوز بھی کرتی (ان اخباروں کے لئے) جن میں احمد فراز، اشفاق احمد، اسلم فرخی اور بے شمار بڑے بڑے نامور لکھاریوں کو خراج تحسین پیش کرتی؛ مگر سب کچھ چھپ چھپا کر کرنا پڑتا تھا کہ کہیں ہمارے لکھنے پر پابندی عائد نا ہو جائے۔

خیر میں ایم ایس سی باٹنی میں تھی تو دوستانہ فلسفے والوں سے تھا، اس دوران ”سی اے قادر“ صاحب سے بے شمار سوال وجواب کا سلسلہ یونیورسٹی کے ایک ”پی یو کلب“ میں نشستوں میں جاری رہا۔ زندگی بھی کیا ہے، کیا نہیں ہے اور کس قدر وسیع ہے، دھیرے دھیرے اس کا ادراک ہونے لگا۔ اسی دور میں ”اس“ ایم ایس سی کی طالبہ کا مضمون فلسفے کے رسالے میں چھپا۔ میں یہ ہی سمجھی کہ یہ میرا نہیں، ان کا اعزاز ہے۔ اس وقت میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتی تھی۔

مگر جوں جوں وقت گزرا تو ان سن رسیدہ گھڑیوں نے مجھے عالم ہو میں لا بٹھایا۔ میں نے سوداگری کے میدان میں بھلائی، نیکی اور بدی سب کچھ نفع بخش سودو زیاں میں بیچا۔ مجھے یاد ہے آپ انگریزی ڈیپارٹمنٹ اولڈ کیمپس میں پڑھتے تھے اور میں باٹنی نیو کیمپس میں تھی۔ کچھ دوست اور سہیلیاں سانجھی یوں تھیں کہ ہم سرگودھا کے علاقے سے تھے، شرموں والے علاقے سے تعلق تھا، نظروں میں حجاب اور دل میں احترام کی شکل میں پیار ہوتا تھا۔

میں اردو بورڈ میں اور آپ جنگ میں کام کرنے لگے۔ مجھے سب جانتے تھے اور میں بھی سب کو جانتی تھی مگر کبھی بھی آج کے جدید لوگوں کی مانند بڑھ کر سب سے نا ملے۔ بس ضوابط زندگی میں سب کچھ پڑھا لکھا مگر طلب مزید پڑھنے کی رہی، جتنا پڑھتی گئی اتنا ہی خواست گاری کا ستارہ میرے آنگن میں چمکنے لگا، مگر ساتھ ساتھ اپنی کم مایئگی اور کم علمی کا احساس بھی بڑھنے لگا۔ آج آپ نے اپنی وبائی بیماری کے دوران ”حالت قرنطینہ“ میں جو کالم میں لکھا اس کو پڑھ کر میں آپ کو ایک اطلاع دیتی ہوں کہ آپ نے وہ کیا جس کے لیے آپ کو یہاں بھیجا گیا۔

ہم اپنا بخت بنا نہیں سکتے مگر کریم النفسی کی راہ پر چلتے چلتے ہمارا رابطہ انسانوں کے سمندروں میں چھپے اعجاز سے ہو جاتا ہے ؛ اور یہ لمحہ در ثمین سے کم نہیں ہوتا۔ مجھے آپ کا کالم پڑھنے کے بعد یہ ہی راز ملا کہ اس سفیر انسان، ذرہ بے مایہ کو خالق ومالک کا در مل گیا ہے۔ اب وصال کی شق باقی ہے وگرنہ صورت دونوں جہان کے سفر میں سوال وجواب کی محدود زندگی لا محدود میں زم ہو چکی ہے۔

آپ کی بہن
بینا گوئندی

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments