میری ”بد معاشیوں“ کے انداز


مایا اور میں عارف حسین کے سامنے بیٹھے تھے۔ میری ڈائریکٹ اپائنٹ منٹ عارف حسین کی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ عارف حسین کو مجھ پہ بہت مان ہے۔ پہلے تو سرزنش کی کہ مایا کی ای میل کا جواب ”کیپیٹل لیٹر“ میں کیوں دیا۔ انھوں نے پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ مجھے لگا اگر میں نے یہاں وہ سب الزام لگا دیے، جو مجھے محسوس ہوتا تھا، کہ مایا نے غلط کیا ہے تو اس کی بہت سبکی ہو گی۔ میں نے اتنا کہا، مجھے پورے اختیار کے ساتھ کام کرنا ہے، ورنہ نہیں۔ اور مایا میرے اختیار میں مداخلت کرتی ہیں۔ ’عورت کہانی‘ کی مثال دی، جس کی میزبان مایا تھی۔ میرا کہنا تھا پروڈیوسر میں ہوں، مایا کو سیٹ پر اینکر بن کے رہنا چاہیے۔ سیٹ پر میں کسی کو باس نہیں مانتا۔ اس میٹنگ میں بہت سی ایسی باتیں ہوئیں، جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ عارف حسین نے آخری سوال کیا:

”آپ کے خیال میں مایا جس سیٹ پہ ہیں، یہ اس کی اہل نہیں“ ؟
میں ایمان داری سے جواب دیتا تو کہتا: ”بالکل بھی اہل نہیں“ ۔
میں نے مایا کی صورت دیکھی تو اس پہ ترس آ گیا۔ عارف حسین کو جواب دیا:

”یہ بات نہیں ہے“ ۔
میں مایا کو بچانا بھی چاہتا تھا، اور اپنا دفاع بھی کر رہا تھا، ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں ممکن نہ تھیں۔ زچ آ کے کہا:
”سر، میں استعفا دے دیتا ہوں“ ۔

عارف حسین میری بات سن کے ہنس پڑے اور کہا، استعفا دے کے جہاں بھی جاؤ گے، وہاں کوئی نہ کوئی مسئلہ تمھارے سامنے ہو گا۔ پھر اس مسئلے سے بچ کے کہاں جاؤ گے؟ اچھا نہیں بندہ مسئلوں سے بچاؤ کے لیے خود کشی کر لے؟ خیر یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا، لیکن وہاں سے اٹھتے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے استعفا ہی دینا ہے، میرے لیے ان حالات میں، یہاں کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ نومبر 2008 کی آخری تاریخوں میں سے کوئی ایک شام تھی۔

’اے آر وائے‘ میں ایک شعبے کی دوسرے شعبے سے مخاصمت اپنی جگہ تھی۔ جن اداروں کا سسٹم مضبوط نہ ہو، سیٹھ کی خوش نودی حاصل کرنا اگلے زینہ چڑھنے کی شرط ہو، جہاں ہر کوئی مالک کا چہیتا کہلانا چاہتا ہو، وہاں ایسی سیاست ہونا غیر معمولی بات نہیں۔ اگر چہ میرے تمام کولیگز سے تعلقات بہت مثالی تھے، کام میں جی لگتا تھا لیکن ان چھہ مہینوں میں، میں نوکری سے بیزار آ چکا تھا۔ یہاں ہر کوئی دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔ اس دوران میں ایک خیر خواہ نے کہا کہ میں چاہوں تو ’اے آر وائی ڈیجیٹل‘ جو کہ انٹرینمنٹ چینل ہے، وہاں سوئچ کر جاؤں، وہ سفارش کر دے گا۔

’اے آر وائے ون ورلڈ‘ کے ’سی ای او‘ عارف حسین تھے، جو آج کل ’ہم ٹی وی نیٹ ورک‘ میں ہیں۔ ان سے اچھا باس شاید ہی کہیں کوئی ہو۔ وہ اپنی ٹیم کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی ٹیم کی تن خواہ کبھی لیٹ نہیں ہونے دی۔ جب کہ ’اے آر وائے ڈیجیٹل‘ کے ملازمین کی تن خواہ تین تین مہینے لیٹ ہوتی تھی۔ حالاں کہ جب ’اے آر وائے ڈیجیٹل‘ نمبر ون چینل تھا، تو بھی ادارے کا یہی وتیرہ رہا، کہ ملازمین کی تن خواہ روک لیتے تھے۔ ہمیشہ سے میرا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وقت پہ مزدوری نہیں دو گے، تو میرے اندر کے کامریڈ کا کام کرنے کا من ہی نہیں کرے گا۔ اس وجہ سے میں نے ’اے آر وائے ڈیجیٹل‘ میں جانے کی دل چسپی ظاہر نہیں کی اور اچھا ہی کیا۔

ان سارے قضیوں سے ذرا پہلے کی بات ہے، میرے ایک دوست نے ڈراما سیریل بنائی تھی۔ ’اے آر وائے ڈیجیٹل‘ سے پروڈیوسر کا معاہدہ ہو گیا، لیکن سیریل کی کوئی آٹھ دس اقساط کم پڑتی تھیں۔ میں نے ایڈٹنگ کے دوران میں اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ رکھی تھیں، تو اسے تجاویز دیں، کہانی میں کس جگہ پر کیا کیا جائے کہ اقساط بڑھائی جا سکتی ہیں۔ اس محاورے کے مصداق کہ جو ’بولے سو گھی کو جاوے‘ ، مجھ سے کہا گیا، سیریل کا وہ حصہ لکھ دوں۔ میں نہیں لکھنا چاہتا تھا، لیکن پروڈیوسر کی مشکل کا حل نکالنا پڑا۔

عارف حسین سے میٹنگ کے بعد اسی رات، یا اگلے روز میں نے گھر بیٹھے آفیشل آئی ڈی سے اپنا استعفا مایا خان کو ای میل کر دیا۔ استعفا دینے کے بعد سب سے پہلے اسی دوست کو آ کے بتایا، جسے اقساط بڑھانے کی موزوں تجاویز دی تھیں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے، استعفا بھیج دیا ہے تو اب میری ڈراما سیریل کا وہ حصہ تمھی ڈائریکٹ کرو۔

استعفے سے اگلے روز میں سویا ہوا تھا، کہ انیق بھائی کی فون کال آ گئی۔ ”تمھیں کسی کی کال آئی ہے“ ؟

میں نے نیند کی کیفیت میں پوچھا، کس کی کال آنا تھی، انیق بھائی؟ مجھے کسی کی کال نہیں آئی۔ انیق بھائی نے کہا، ”میں نے سلمان اقبال (مالک) سے بات کر لی ہے، اب تم میرا شو ’آغاز‘ کیا کرو گے۔ کیا تمھیں آفیشلی نہیں بتایا گیا“ ؟
میں نے محجوب لہجے میں کہا، ”انیق بھائی میں استعفا دے آیا ہوں۔ چھوڑ دیا ہے، اے آر وائے“ ۔

استعفا تو میں بھیج چکا تھا، لیکن مایا نے میرا استعفا آگے نہیں بڑھایا۔ یہ بات مجھے کچھ دنوں بعد معلوم ہوئی۔ میں ڈراما سیریل ’گردش‘ کی رکارڈنگ میں مصروف تھا، اور مجھے آفس سے کالیں آ رہی تھیں۔ کال کرنے والا دوسرا سینیئر پروڈیوسر تھا، جس نے میرے اے آر وائے جوائن کرنے کے بعد ہمیں جوائن کیا تھا۔ اس سینیئر پروڈیوسر اور میں نے پی ٹی وی اکیڈمی اسلام آباد سے ایک ساتھ پروگرام پروڈیوسر کا کورس کیا تھا۔ اس کا اصرار بہت بڑھا کہ میں آفس آؤں اور ایک بار بیٹھ کے بات کروں۔ میں نے بے نیازی سے کہا، میں اس وقت ایک ڈرامے کی رکارڈنگ میں مصروف ہوں، پندرہ دن کے بعد ملاقات ہو گی۔ وہ اس پہ بھی مان گیا۔

نو دن میں رکارڈنگ مکمل کر کے، ایک روز میں ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ کے دفتر چلا گیا۔ شکیل عادل زادہ کو بتایا کہ میں نے ملازمت چھوڑ دی ہے۔ انھوں نے فوری رد عمل نہیں دیا، لیکن تھوڑی دیر بعد کہا، زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ انسان کی خواہشوں کے حصول کے لیے سرمایہ بہت ضروری ہے۔ کتاب پڑھنے کا شوق ہو، تو کوئی کتاب تبھی خریدی جا سکتی ہے، جب جیب میں رقم ہو۔ یوں تھوڑی دیر وہ روپیا پیسا کے فوائد گنواتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ ان سے بحث تو نہیں کی جا سکتی تھی، پھر یہ بات بھی کچھ غلط نہ تھی۔

یہی ایک موقع نہیں تھا، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر بھائی شکیل نے ایسی بات کی ہے۔ لوگوں کی مثال دے کر بتاتے ہیں کہ کیوں کر دولت کی اہمیت ہے۔ یہ شکیل عادل زادہ وہی شخص ہے، جس نے ماہ نامہ ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ کو کئی کئی مہینے، اور دو دو تین تین سال محض اس لیے نہیں شایع کیا، کہ ان کے معیار پہ پورا اترتی کہانیوں کا انتخاب نہیں ہو سکا۔ انھوں نے ٹھان رکھا تھا، کہ جب تک ان کے معیار پہ پوری اترتی کہانیاں کا انتخاب نہیں ہو جاتا، ”سب رنگ ڈائجسٹ“ شایع نہیں ہو گا۔

ایک بار ایسے ہی کسی موقع پر جب وہ دولت کے فوائد گنوا رہے تھے، میں نے ہنس کے جتلا دیا، آپ نے خود تو معیار کو پیسا کمانے پر ترجیح دی، اس طرح رقم کمانے کا سوچا نہیں، جیسے ’سسپینس ڈائجسٹ‘ ، ’جاسوسی ڈائجسٹ‘ اور دوسروں نے ہر ماہ اشاعت سے کمائی، اور ہمیں یہ تلقین کرتے ہیں، کہ پیسا کمانے کی کوشش کرو؟ بہ جائے ڈانٹنے کے انھوں نے جواب دیا:

”ہم نے بہت بڑی غلطی کی، نہیں کرنی چاہیے تھی“ ۔

ان کا یہ کہنا بس کہنا ہی ہے، شکیل عادل زادہ اگلے جنم میں بھی روپے پیسے پر معیار ہی کو ترجیح دیں گے، لیکن ہاں ہم جیسوں کو سمجھائیں گے، میری راہ مت چلنا کہ اس راہ میں بہت کٹھنائیاں ہیں۔

میں ایک دن اے آر وائے کے آفس چلا گیا۔ سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ فرسٹ فلور پہ وہ بڑا سا کمرا جہاں ہماری نشستیں تھیں، انفوٹین منٹ ڈپارٹ منٹ وہاں سے شفٹ ہو کے گراونڈ فلور پہ منتقل ہو گیا تھا۔ اپریل میں جب میں نے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ جوائن کیا تھا، تب بلڈنگ میں انٹیریئر ڈیزائن کا کام چل رہا تھا، ساتھ آٹھ مہینوں میں ہر شعبے کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ ڈیسک بن چکے تھے۔ اس سینیئر پروڈیوسر سے جو میرا کورس میٹ رہ چکا تھا، اسی کے کیبن میں بیٹھے تھوڑی دیر گلے شکوے ہوئے، پھر اس نے دوستی کا مان جتلاتے کہا، بس میں کہ رہا ہوں، چپ کر کے جوائن کرو۔ میں نے کہا، ایک ہفتے بعد مہینا پورا ہونے دو، پھر جوائن کروں گا۔ یہ سب معاملات طے ہونے کے بعد میں وہاں سے اٹھا۔ ابھی میں آفس ہی میں تھا، کہ اسی سینیئر پروڈیوسر کی کال آ گئی، ”تم مایا سے نہیں ملے“ ؟ میں نے جواب دیا، ”نہیں“ ۔ وہ بہ ضد ہوا کہ تمھیں ملنا چاہیے۔ میں مایا کے کیبن میں چلا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ دو اجنبیوں کے بیچ میں کیا بات چیت ہوئی۔

مہینا پورا ہونے پر جنوری 2009 ء، میں نے پھر سے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ جوائن کر لیا۔ حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ میرے بنک اکاؤنٹ میں پندرہ دن کی تن خواہ بھی آ گئی۔ بتایا گیا کہ پندرہ دن میری سالانہ چھٹی کے تھے، یہ سیلری ان دنوں کی ہے۔ اس سارے قضیے کی خبر ہائی کمانڈ کو نہیں تھی، ورنہ ایسا بھی نہیں تھا، میرے اس طرح استعفا دینے کی ’بد معاشی‘ کو یوں قبول کیا جاتا کہ وا پس بلا کر پندرہ دن کی تن خواہ بھی ادا کی جاتی۔ سچ ہے کہ خدا مہربان ہو، تو سبھی مہربان ہو جاتے ہیں۔

ظفر عمران
اس سیریز کے دیگر حصےملنا آصف قبال اور ظہیر عباس سے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments