کرکٹر آصف اقبال سے میرا سوال اور ان کی حیرانی


ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 ء کی افتتاحی تقریب کے بعد ایک ہی میچ تھا۔ ہم پری میچ شو کر آئے تھے اور پوسٹ میچ تبصرے کے لیے دو تین گھنٹے کا وقفہ تھا۔ ظہیر عباس کسی کام سے چلے گئے کہ شو سے پہلے لوٹ آئیں گے۔ جب کہ ڈائریکٹر شیخ سعید، میں اور آصف اقبال بورڈ روم میں آ کے بیٹھ گئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ آصف اقبال صاحب سے سکون کے لمحو‍ں میں بات ہو سکتی تھی۔ چھریرے بدن کے آصف اقبال بہت نرم لہجے میں، ٹھیر ٹھیر کے بات کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کی شخصیت کا سحر دو چند ہو جاتا ہے۔ میں انھیں محض ایک کرکٹر سمجھ کر کرکٹ پہ بات کر رہا تھا۔ ان سے منسوب قصوں کا ذکر کر رہا تھا۔ کرکٹ سے میرا لگاؤ دیکھ کر وہ خوش تھے۔ میں ایسے بے تکلف ہو رہا تھا، جیسے ان کے بعد کرکٹ پر ایک میں ہی اتھارٹی ہوں۔ اس دوران میں، میں نے پوچھ لیا:

”سر! آپ آج کل کیا کرتے ہیں“ ؟

آصف اقبال نے حیران نظروں سے میری طرف دیکھا، جیسے میں نے کوئی اچنبھے کی بات پوچھ لی ہو۔ شیخ میرے بائیں ہاتھ کی کرسی پر بیٹھا تھا، میرا سوال سن کے وہ بھی مضطرب ہو گیا۔ مجھے ٹیبل کے نیچے اپنے پاؤں پر شیخ سعید کے پاؤں کا دباؤ محسوس ہوا۔ مجھے لگا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔

”کچھ نہیں! بس اے آر وائے کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ہوں۔ یہی معاملات دیکھتا ہوں“ ۔

میری لیے یہ خبر تھی کہ آصف اقبال کرکٹر ہی نہیں، ہمارے سیٹھوں میں سے ایک سیٹھ ہیں۔ میں نے خجالت مٹانے کے لیے سوال گول کیا۔
”نہیں سر! میرا مطلب تھا کہ آپ آئی سی سی کے ساتھ کچھ نہیں کرتے“ ؟
”یہیں سے وقت نہیں ملتا اور پھر ایک عرصہ کرکٹ کو دیکھ لیا۔ اب آرام کرنا چاہیے“ ۔

میری معلومات کا یہ احوال تھا کہ میں جس ادارے کے لیے کام کرتا تھا، اسی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو نہیں جانتا تھا۔ میری لیے آصف اقبال اول آخر کرکٹر تھے اور ہیں۔ یہ جان کر کہ وہ ایک طرح سے ہمارے باس بھی ہیں، مجھ پر ذرا رعب نہ پڑا تھا۔ ہاں اب یہ سمجھ آ گیا تھا کہ آصف اقبال کو دیکھ کر ہر کوئی مودب کیوں ہوا جا رہا تھا۔

”اسپورٹس روم لائیو ٹی 20 اسپیشل“ کے میزبان اے آر وائے کے نیوز کاسٹر وسیم بادامی تھے۔ دوسرے یا تیسرے روز میں نے بادامی سے پوچھا، ”آپ کا یہ چشمہ، نظر کا ہے“ ؟ بادامی نے تردید کی، ”نہیں“ ! وہ چہرے مہرے سے نو عمر دکھتے ہیں تو ذرا بڑا دکھائی دینے کے لیے چشمہ لگاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑی عمر کا شخص خبریں پڑھتا ہو تو ناظرین کو خبر معتبر لگتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بشمول شو بز میں ’تاثر‘ یا ’پرسیپشن‘ کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ ایک شخص کے بارے میں یہ تاثر بن جائے یا بنا دیا جائے کہ وہ ’اعلا پائے کا‘ ادا کار، صحافی، مصنف، شاعر، موسیقار، ہدایت کار ہے، یا وہ کچھ بھی ہو، تو ہر ہر یہی کہنے لگتا ہے۔ اس کے اچھے برے کام کو اچھا ہی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی اس کے کام کی خرابی کی طرف اشارہ کرے تو تنقید بے اثر ہوتی ہے۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست سے مثال دینا پڑ رہی ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسینٹ کہ کر بد نام کیا گیا۔ جس نے دیکھا بھی نہیں، وہ بھی یقین سے کہتا ہے کہ زرداری دس فی صدی کمیشن لیتے تھے۔ دوسری طرف عمران کی مثال ہے، بڑے تیقن سے کہا جاتا ہے، کچھ بھی ہو عمران خان کرپٹ نہیں ہیں۔ کرپشن کیا ہوتی ہے، اس کی تعریف پہ کون جائے۔ خیر! زرداری یا عمران کی وکالت مقصود نہیں، پرسیپشن گیم کیا ہوتی ہے، یہ واضح کرنا چاہا ہے۔

گزرے وقتوں میں پرسیپشن بنانے کا ادراک کم کم کو تھا۔ آج کل سب پروفیشنل، پرسیپشن بنانے پر بہت محنت کرتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتا، ظاہر ہے وہ دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ یا وہ ایسا غیر معمولی صلاحیت کا مالک ہو کہ اس کا کام اس کی شناخت بن جائے۔ جیسا کہ اردو زبان کا شاعر غالب ہے۔ پھر ہم میں، آپ میں کتنے ہیں، جنھوں نے غالب کو پڑھا ہے؟ ہم سبھی کہتے ہیں، غالب اردو کے عظیم تر شاعروں کی فہرست میں ٹاپ پر، میر سے ذرا کم یا اوپر ہیں۔ غالب کی پرسیپشن آج بھی مضبوط ہے۔ چند ایک کے مرنے کے بعد ان کے بارے میں سبھی بھولنے لگتے ہیں۔ ان کی پرسیپشن بنانے والے کسی اور کی پرسیپشن بنانے لگتے ہیں۔ تو حق کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ہو آخر میں اس کا کام ہی باقی رہتا ہے۔

اگر چہ میرا شمار غیر معمولی افراد میں نہیں کیا جا سکتا، لیکن اے آر وائے نیوز انفوٹین منٹ ڈپارٹ منٹ میں میرے سینیئر مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ میری یہ پرسیپشن بن گئی تھی کہ میں مشکل سے مشکل ٹاسک آسانی سے پورے کر لیتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ میری سنگل کیمرے پہ شوٹ کی تربیت تھی۔ نیوز روم یا اسٹوڈیو ورک جہاں ایک سے زائد کیمرے نصب ہوں، سنگل کیمرے کے مقابلے میں بچوں کا کھیل ہوتا ہے۔

اپنی ملازمت سے اکتاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی تھی، کہ میرا اصل میدان شو بز تھا/ ہے، اور میں نیوز چینل کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ میں کبھی سولہ اٹھارہ گھنٹے تو کبھی چھتیس چھتیس گھنٹے آفس ہی میں گزار دیتا تھا۔ جب تک کام میری مرضی کے مطابق مکمل نہ ہو، مجھے چین ہی نہیں پڑتا تھا۔ اب میں سمجھا ہوں کہ انسان کو ایک زندگی ملتی ہے، اسے یہ زندگی ہر وقت کام کرتے نہیں گزارنی چاہیے۔ جہاں ہم موجود نہیں ہوتے، وہاں کا نظام بھی چلتا رہتا ہے اور بہ تر چلتا ہے۔ روز مرہ میں ایک توازن ضروری ہے۔ کام اتنا ہی کیا جائے، جو گھریلو یا ذاتی زندگی یا تفریح کو متاثر نہ کرے۔ پھر یہ بھی مناسب نہیں کہ آدمی ہر وقت تفریح میں پڑا رہے اور کام کہیں گم ہو کے رہ جائے۔ جیسا کہ میں نے لکھا، میں اے آر وائے کی ملازمت سے اکتا چکا تھا اور پنجرہ توڑنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا تھا، تو اسی مایا سے بات بات پر الجھ جاتا، جو مجھے ہر موقع پر آگے آگے کرتی تھی۔ بعض اوقات وہ میرے رویوں پر حیران ہوتی تھی کہ اسے ہو کیا گیا ہے۔

انھی دنوں جب میں نوکری سے بیزار آ چکا تھا، اور استعفا دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا، انیق احمد نے مجھے سمجھانے کے لیے یہ قصہ سنایا کہ جب انھوں نے پہلی بار جیو نیٹ ورک جوائن کیا تو انھیں مشتاق احمد یوسفی کی کال آ گئی۔ مبارک باد دینے کے بعد یوسفی صاحب نے نصیحت کی، کہ ”یاد رکھو تم ایک سسٹم کا حصہ بننے جا رہے ہو، سسٹم بدلنے نہیں جا رہے۔ لہاذا وہاں جا کر نظام بدلنے کی کوشش مت کرنا“ ۔ نصیحت شان دار تھی، لیکن جب انسان کچھ کر گزرنے پر مائل ہو تو اس پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی۔

آصف اقبال سے میری خوب گاڑھی چھن رہی تھی۔ وہ مجھ سے بہت پیار سے پیش آتے۔ اوپر یہ ذکر ہو چکا، باقی عملہ ان کے سامنے گھبرایا رہتا تھا کہ وہ کسی بات پر ناراض نہ ہو جائیں۔ وہ باس کے بھی باس تھے۔ شیخ سعید نے بتایا کہ جب وہ میرے بھیجنے پر حاجی روف کے کمرے میں گیا تھا تو آصف اقبال حاجی صاحب کی کرسی پر اور حاجی روف ان کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے تھے۔ آصف اقبال، حاجی روف کے بڑے بھائی حاجی عبد الرزاق یعقوب مرحوم جو اس وقت حیات تھے، کے قریبی تھے۔ بعضوں کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ ’اے آر وائے‘ ’عبد‘ ، ’الرزاق‘ ، ’یعقوب‘ ، کے پہلے پہلے حروف ہیں۔ سلمان اقبال انھی عبد الرزاق یعقوب کے سپوت اور حاجی روف کے داماد ہیں۔

ٹورنامنٹ انگلستان میں ہو رہا تھا تو میچ پاکستانی وقت کے مطابق شام کو ہوتے۔ دوسرا میچ رات ساڑھے دس یا گیارہ بجے کے قریب مکمل ہوتا تھا۔ میچ سے پہلے میچ کے بعد کے تبصروں کے بیچ میں، ہم بورڈ روم میں آ کے بیٹھ جاتے تھے۔ مایا یوں تو پانچ بجے آفس چھوڑ جاتی تھی، لیکن ان دنوں سات یا آٹھ بجے تک بیٹھتی تھی۔ کیوں کہ باس (آصف اقبال) جو دیر تک وہاں ہوتے تھے۔ غلامی میں دفتر میں دیر تک حاضری بھی قابلیت شمار ہوتی ہے، گر چہ خامی ہے۔ مایا کے کمرے کے ساتھ ہی بورڈ روم تھا۔ دیوار سے دیوار ملی تھی۔

ایک دن آصف اقبال (شاید) اسٹوڈیو کے اے سی کی کم کولنگ پر بات کر رہے تھے کہ میں نے دبے لفظوں میں انتظامی معاملات پر شکوہ کر دیا کہ یہاں ہر شعبہ دوسرے شعبے کو حقیر سمجھتا ہے۔ پروڈکشن کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ میں ہر شو کے بعد رپورٹ میں لکھتا ہوں، ’حسب معمول اے سی کام نہیں کر رہا‘ ، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آصف اقبال نے میری امیجیٹ باس مایا کے بارے میں سوال کر دیا کہ وہ تعاون نہیں کرتی؟ میں مایا کے لیے کچھ برا نہیں کہنا چاہتا تھا۔ مایا سے مجھے یہ شکوہ تھا کہ وہ اچھی باس نہیں ہے۔ میں تذبذب میں تھا کہ کیا کہوں کیا نہیں، دھڑ سے بورڈ روم کا دروازہ کھلا۔ مایا اندر داخل ہوئی اور آصف اقبال سے کوئی بات کی۔ میں، شیخ سعید اور آصف اقبال تینوں ہی حیران رہ گئے کہ عین وقت پر مایا کیسے آ گئی۔ ہو نہ ہو ہماری باتیں سن رہی تھی۔ آصف اقبال نے انگریزی میں پوچھا:

”مایا آپ ہماری باتیں سن رہی تھیں“ ؟ مایا کا رنگ فق ہو گیا۔ گڑبڑا کے انکار کیا۔

مایا چلی گئی تو آصف اقبال نے مجھ سے کچھ ایسا کہا، ظفر یہاں جو ہوتا ہے، آپ کہنا چاہیں تو مجھ سے کہیں۔ یہ نہیں کہ ابھی، آپ میرا پرسنل نمبر نوٹ کریں، میں (انگلستان) چلا بھی جاؤں اور جب جب چاہیں، مجھے کال کر کے بتائیں۔ مایا سے مجھے ہزار شکوے بھی ہوتے تو بھی چین آف کمانڈ توڑ کے آصف اقبال سے بات نہ کرتا۔

ظفر عمران
اس سیریز کے دیگر حصےملنا آصف قبال اور ظہیر عباس سےعمران خان پر مرنے والی لڑکیوں کے قصے اور ظہیر عباس کی جنت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments