گجی اور گجا پیر


”نعرہ تکبیر۔ ۔ ۔ اللہ اکبر“ کی آوازوں نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کسی نے زور دے کر کہا ”کمرہ تھوڑی دیر کے لئے خالی کر دیں۔ امیر صاحب شہید کی والدہ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ذرا جلدی کریں“ ۔

تھوڑی دیر بعد امیر صاحب اپنے محافظوں اور ساتھیوں کی معیت میں اس چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئے جو اس سے پہلے محلے کی عورتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہ شہید کی والدہ کی دلجوئی میں مصروف تھیں۔

”السلام علیکم بہن جی۔ مجھے تو آپ کے پاس شہید کے جنازے کے ساتھ آنا چاہیے تھا مگر تنظیمی معاملات اور حفاظتی اقدامات کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ ویسے بھی شہادت کے جس بلند رتبے پر آپ کا بیٹا فائز ہو چکا ہے، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم سب آپ کی قدم بوسی کریں مگر اسلام میں اس کی مخالفت ہے۔ آپ کی تعظیم اور قدر ہم سب پر لازم ہے کیونکہ آپ کے شہید فرزند نے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ دشمن کے درجنوں سپاہیوں کو واصل جہنم کیا اور یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا۔ وہ اپنے والدین کی بخشش کا باعث بھی بنتا ہے اور رب سے درخواست کرتا ہے کہ اسے بار بار زندہ کیا جائے تا کہ وہ شہادت کی لذت سے آشنا ہو سکے۔

آپ کا عظیم بیٹا جب سے ہمارے ساتھ تھا، اس نے اپنے کردار کے گہرے نقوش ہم سب پر مرتب کیے۔ اس نے کوئی نماز قضا نہیں کی، کسی کا دل نہیں دکھایا اور اللہ کا احسان عظیم دیکھئے کہ وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا تو روزے سے تھا۔ یہ سعادت نہ صرف اسے نصیب ہوئی بلکہ آپ کے لئے بھی فخر کی بات ہے کہ آپ اس عظیم المرتبت بیٹے کی ماں ہیں“۔ امیر صاحب مسلسل بولے جا رہے تھے اور شہید کی ماں سفید دوپٹہ ماتھے تک لٹکائے ہوئے خاموشی سے یہ سب کچھ سنے جا رہی تھی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا کیونکہ اس کی زندگی میں اس قدر اہم لمحہ کبھی آیا ہی نہیں تھا کہ وہ بہت سے لوگوں کی گفتگو کا اہم مرکز بن سکتی۔

”سب لوگ شہید کے درجات کی بلندی کے لئے دعا فرمائیں“ امیر صاحب کی آواز گونجی اور سب نے ہاتھ جوڑ کر دعا پڑھنا شروع کر دی۔ دعا کے اختتام پر امیر صاحب نے اجازت مانگی اور اپنے ساتھیوں کے جلو میں دو کمروں کے گھر سے روانہ ہو گئے۔ گھر کے باہر کھڑے سینکڑوں افراد نے ”نعرہ تکبیر“ بلند کیا اور امیر صاحب کی بڑی گاڑی تنگ گلی سے نکل کر سڑک پر آ گئی، شہید کی والدہ پھر عورتوں میں گھر گئی اور کئی گھنٹوں تک آنے جانے والوں کی آنکھوں میں اپنے لئے احترام کے جذبات کا تماشا دیکھتی رہی۔

اس کے لئے سب سے انوکھی بات گجی کے بجائے شہید کی والدہ کے نام سے پکارا جانا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پچاس برسوں میں کبھی بھی کسی کو اپنے لئے احترام کے الفاظ پکارتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ اس کے چھ کے چھ بیٹے بھی اسے ”توں“ کہہ کے پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کو بھی یہی کہتے سنا تھا اور محلے کے ہر گھر میں تو اس کا نام اتنی کثرت سے لیا جاتا تھا کہ اس کے ساتھ کسی قسم کا سابقہ لگانے میں وقت کے ضیاع کا احتمال تھا۔

برتن دھونے اور کپڑے استری کرنے کے علاوہ غسل خانوں اور کمروں کی صفائی، یہ سب ایسے کام تھے کہ ان کو کرنے کے لئے ہر خوشحال گھرانے میں اسی کی ضرورت تھی۔ کئی ایک گھر تو اس کے اوپر تلے کے بچوں کے کام کے دوران گھر میں داخلے کو جائز سمجھتے تھے مگر کچھ زیادہ نازک مزاج بیگمات کو بچوں کی بدتمیزیوں اور شرارتوں کو برداشت کرنے کے باوجود ان کی خارش، کھانسی اور نزلے سے بہت چڑ تھی۔ گجی کی مجبوری یہ تھی کہ بچوں کا باپ مزدوری کے لئے نکل جاتا تھا اور بچے کسی کے حوالے کرنا ممکن نہیں تھا۔

”وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے“ گجی نے عورتوں کے آنے جانے سے بے پرواہ ہو کر کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے سوچا۔ گھروں میں برتن دھوتے اور صفائی کرتے کرتے اس کی کیا حالت بن گئی مگر اس کے بغیر تو اس کی اس سے بھی بری حالت ہوتی۔ جونہی وہ کسی بنگلے کے اندر داخل ہوتی تو اپنے سب بچوں کو کمروں کے اندر آنے سے منع کرنے سے کام کا آغاز کرتی۔ وہ کام شروع ہی کیے ہوتی کہ سب سے چھوٹا گھسیٹیاں کرتا ہوا دروازے کی جالی کے ساتھ آن بیٹھتا۔

”اماں“ یہ آواز سن کر وہ دروازے کی طرف لپکتی تو سب کے سب اس سے آن چمٹتے۔ وہ ان کو خود سے الگ کرنے میں مصروف ہوتی کہ بیگم صاحبہ کی آواز گونجتی، ۔ ”گجی ابھی تک تم نے باتھ روم نہیں دھویا۔ یہ بچے تو تمہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیں گے“ ۔ وہ ان کو ایک طرف کر کے ”آئی“ کہہ کر پھر کام میں جت جاتی۔ یہ کسی ایک گھر کا معمول نہیں تھا بلکہ درجنوں میں آئے روز اس کو اسی صورتحال سے نمٹنا پڑتا تھا۔ کوئی نرم دل بیگم صاحبہ ہوتی تو بچوں کو رات کی بچی ہوئی روٹی یا ادھ جلا ڈبل روٹی کا ٹکڑا دے دیتی اور بچے اس پہ لڑنے میں مصروف ہو جاتے۔

زکٰوۃ کے مہینے میں اس کی آمدن بڑھ جاتی اور عید کے موقع پر کوئی بیگم صاحبہ بچوں کے کپڑوں کا بندوبست بھی کر دیتی۔ اس نے زندگی کے ان معمولات کے ساتھ نہایت اچھی طرح سمجھوتہ کر رکھا تھا۔ اس کے بچوں کے لئے ”بیگم صاحبہ“ قابل احترام اور صاحبوں کے بچے ”چھوٹے صاحب“ تھے۔ بچے ان بچوں میں گھل مل بھی جاتے تھے مگر ہوشیار ہونے کے سبب والدین کا سکھایا ہوا گندے بچوں سے الگ رہنے کا سبق بھی یاد رکھتے تھے۔ کبھی کبھی اپنی ماں کو کسی بیگم صاحبہ کی جھڑکیوں کے سامنے بڑبڑاتے ہوئے دیکھتے تو ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے۔ گھر جا کر باپ سے سوال کرتے تو وہ سب کو ڈانٹ دیتا اور یہ کہہ کر ریڈیو کی سوئی گھمانے لگتا، ”تمہاری ماں کام ہی ایسا کرتی ہو گی۔ اسے ڈھنگ کا کوئی کام آتا ہی کب ہے ورنہ ہماری یہ حالت ہوتی“ ۔

”واقعی مجھے ڈھنگ کا کوئی کام نہیں آتا۔ ہدایت اللہ سچ ہی تو کہتا تھا اگر میں نصیبوں والی ہوتی تو ہدایت اللہ کی سوزوکی کا ایکسیڈنٹ ہی کیوں ہوتا۔ حادثہ نے اس کی تو جان لی جس پہ صبر کیا جا سکتا تھا مگر مالکوں کی گاڑی کے نقصان کا تو کوئی مداوا نہیں تھا۔ حاجی عبدالرحمان صاحب تو پورا تاوان مانگ رہے تھے مگر بالآخر اصلاحی کمیٹی کے دباؤ پر سونے کی انگوٹھی لینے پر راضی ہوئے اور یوں ہدایت اللہ سے شادی کی نشانی بھی اس کے ساتھ ہی چلی گئی“ ۔

اس نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے سوچا جنہیں جھریوں کی بھیڑ میں ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ ٹوٹے ہوئے ناخنوں اور گھسی ہوئی ہتھیلیوں میں اس کی بیوگی کے بیس سال بھی رل مل گئے تھے۔ ”محمد اکرام سب بچوں میں کتنا مختلف تھا۔“ گجی نے اس کی آخری تصویر اپنے ذہن پہ بنتے دیکھی اور آنسو اس کے گالوں پہ لڑھکنے لگے۔ چہرے کی سوکھی ہڈیوں پہ آنسوؤں کا ریلا بہنے لگا۔ تابوت میں رکھی ہوئی محمد اکرام کی لاش کو کفن نہیں پہنایا گیا تھا۔ اس کے جسم کو برف اور سردی سے بچانے والی ہری جیکٹ اسی طرح کسی ہوئی تھی۔ اس کی داڑھی پہ جابجا خون لگا ہوا تھا اور کپڑوں پہ خون کے دھبے تھے۔ آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور اسے محمد اکرام سے اپنی آخری ملاقات یاد آئی۔

”اماں! جب سے میں اس مدرسے میں گیا ہوں میری دنیا بدل گئی ہے۔ مجھے احساس ہوا ہے کہ میں اب تک آپ کی خدمت نہیں کر سکا۔ آپ کے لئے میں نے احترام کے الفاظ استعمال نہیں کیے کیونکہ مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا۔ اب جبکہ تربیت اور تعلیم نے مجھے راستہ دکھایا ہے تو مجھے اندازہ ہوا ہے کہ جنت تو ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ ہمارے امیر صاحب کا حکم ہے کہ ہماری سر زمین پہ حق اور باطل کا معرکہ جاری ہے۔ ہماری تعلیم کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے نکل پڑیں مگر امیر صاحب کا فرمان ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر اس راہ پہ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جہاد کے اس سفر پہ نکل جاؤں۔ اگر میں کامیاب اور کامران لوٹا تو آپ کی خدمت کروں گا اور اگر میں شہید ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ اس نے جلدی سے اپنے بیٹے کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔

”بیٹا! اللہ کرے کہ تم غازی بن کر آؤ۔ ابھی تو میں نے بہت سے ارمان پورے کرنے ہیں۔ میں تمہیں روک کر گناہگار تو نہیں ہو سکتی مگر تمہارے واپس آنے کی دعا تو کر سکتی ہوں“ ۔ اور پھر محمد اکرام اپنے بھائیوں اور ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ گجی کے کانوں میں بیگم صاحبہ کے الفاظ گونجنے لگے۔

”سنا ہے تمہارا بیٹا مجاہدوں کے ساتھ گیا ہوا ہے۔ واقعی بڑی ہمت اور بہادری کی بات ہے۔ اللہ کرے کہ خیریت سے واپس آ جائے۔ ویسے سنا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں۔ صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ جنگ کا بہت خطرہ ہے۔ حکومت کو دن رات پریشانی رہتی ہے، اسی وجہ سے ان کی مصروفیت بھی بہت بڑھ گئی ہے، کبھی ایک میٹنگ تو کبھی دوسری، کبھی راولپنڈی تو کبھی مظفرآباد۔ پچھلے دنوں ٹور کرنے کے لئے نیلم ویلی جا رہے تھے تو جیپ پر فائرنگ ہو گئی۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔

”بیگم صاب! اجمل صاحب اور اکمل صاحب کی خیریت کی کوئی اطلاع آئی؟“
”ہاں بیچارے! دونوں بھائی ولایت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پڑھائی بھی سخت ہے اور سردی بھی بہت ہے۔ اجمل بیٹا تو کھانے میں بھی بہت ٹیڑھا ہے، پتہ نہیں کیسے گزارا کرتا ہو گا“۔

گجی اکرام کی یادوں کو بھلانے کی کوشش میں سامنے پڑے ہوئے دانے پڑھ رہی تھی کہ کیمرے کی فلیش لائٹ نے اس کی توجہ پھر بٹا دی۔ شاید کوئی اخبار والا شہید کی والدہ کی تصویر بنانے کے لئے ان کے گھر آن دھمکا تھا۔ کیمرے نے اس کے افسردہ چہرے کو قید کیا ہو گا مگر اس کے کانوں میں محمد اکرام کے الفاظ گونجنے لگے۔

”اماں! سب بھائیوں سے کہو کہ انہوں نے کمرے میں اپنی جو تصویریں فریم کروا کے رکھی ہیں، وہ اتار دیں۔ اللہ کی رحمت کے فرشتے ایسے گھروں میں داخل نہیں ہوا کرتے۔ کیا ضروری ہے کہ جو کام آپ کی زبان سے رک سکتا ہے اسے میں اپنے ہاتھ سے روکوں۔ تصویر بنانا، کھچوانا اور لگانا حرام ہی۔“

گجی نے سوچا کہ جب محمد اکرام کے بھائیوں نے ہی اس کی بات نہیں مانی تو اخبار والے کو میں کیسے روک سکتی ہوں۔ ویسے بھی میری تصویر نے کہاں جا کے سجنا ہے۔ ایک دو روز کے لئے کسی اخبار کے صفحے پر اور پھر اخبار ردی کے ڈھیر میں۔ اپنے سمیٹے ہوئے کچرے کے ساتھ میں بھی وقت کے ڈرم میں گل سڑ جاؤں گی۔ چھ ماہ تک اسے محمد اکرام کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور پھر دو روز پہلے اس کے گھر کے سامنے ایک گاڑی رکی تھی۔ اس کے بعد گجی کو کچھ یاد نہیں تھا کیونکہ وہ چارپائی دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی تھی۔

جب ہوش میں آئی تو اس کے تمام بیٹے اس کے گرد گھیرا کیے ہوئے تھے مگر کسی کے پاس اسے تسلی دینے کے لئے الفاظ موجود نہ تھے۔ اس کو تسلی دینے والوں کے پاس شہادت کے رتبے کی آیات اور بہادری کے واقعات تھے مگر گجی کو یہ باتیں سننے کی عادت ہی نہیں تھی۔ اس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال نہیں تھا کہ اچانک وہ اس قدر اہم ہو جائے گی۔ امیر صاحب کی باتوں نے ایک لمحے کے لئے اسے یہ احساس ضرور پیدا کر دیا تھا کہ وہ اب برتن مانجھنے، ٹاکی لگانے اور اترن پہننے والی گجی نہیں بلکہ شہید کی ماں ہے۔ جب شہید زندہ رہتا ہے تو زندگی گزارنے والی اس کی ماں بھی تو بیگم صاحبہ کہلوا سکتی ہے۔ یہ سوچ کر اسے ہنسی آ گئی تھی مگر امیر صاحب کے چہرے کا نور اسے حوصلہ دے رہا تھا۔

کرنل صاحب کی گاڑی باہر رکی اور بیگم صاحبہ اندر آئی۔

”گجی! مجھے خاص طور سے کرنل صاحب نے خود بھیجا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد اکرام جتنی بہادری سے لڑا اس کی مثال دینا مشکل ہے۔ جب شہید کو گولی لگی تو لاش سب سے پہلے ان کے یونٹ ہی میں لائی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد اکرام چونکہ فوجی سپاہی نہیں بلکہ مجاہد تھا، اس لئے اسے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن نہیں کیا جا سکتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے تابوت پہ پرچم رکھوایا اور قومی ترانہ بجانے کے بعد یہاں بھیجا۔ ان کا کہنا ہے کہ براہ راست مدد کرنا تو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہو گی مگر شہید کا اگر کوئی چھوٹا بھائی جس کی صحت اچھی ہو اور وہ پڑھنا لکھنا بھی جانتا ہو تو اس کے لئے روزگار کا بندوبست کیا جا سکتا ہے“

گجی نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا، ”مگر اسے کیا کام کرنا ہو گا؟“
”یہ میں صاحب سے پوچھ کر بتاؤں گی۔“

کچھ دن بعد چند وردی والے افراد دوبارہ اس گھر میں پہنچے اور گجی کو بتایا کہ اس کے بیٹے کو رضا کار کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اس کا کام اپنے علاقے پہ نگاہ رکھنا اور اعلیٰ حکام کو معلومات فراہم کرنا ہے۔ اسے اس بارے میں کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ دشمن کے علاقے سے معلومات حاصل کرنے کے لئے اسے بھیس بدل کر جانا ہو گا اور اپنے علاقے میں وہ آج سے گجا پیر کہلائے گا۔ وہ شہر سے چند کلو میٹر دور شمسو بابا کے مزار پر رہے گا اور گھر میں ہماری اجازت سے آیا کرے گا۔ ہر مہینے کی تنخواہ آپ کو گھر پر مل جایا کرے گی۔

”یہ ایک قومی خدمت ہے اور بہادری کا کام ہے جو ہر کسی کے بس میں نہیں۔ امید ہے کہ آپ ہمیں مایوس نہیں کریں گی۔ آپ شہید کی والدہ ہونے کی وجہ سے ہم سب کے لئے پہلے ہی قابل احترام ہیں“ کچھ ہی ہفتوں میں شہر میں گجے پیر کی زیارت مشہور ہو گئی۔

امجد ممتاز خواجہ
Latest posts by امجد ممتاز خواجہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments