انٹرنیٹ اسکرین پر کسی کو تنگ کرنے اور دھمکانے کے معاملات


سائیبر سٹالکنگ یا سائیبر بلئینگ (cyber stalking/cyber bullying) کیا ہے؟

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کسی فرد یا ادارے کی مسلسل سرگرمیوں کا تعاقب کرنا اور اسی میڈیم کے ذریعے ان کو دھمکانا، ڈرانا سائیبر سٹالکنگ اور سائیبر بلئینگ کہلاتا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک میں یہ مکروہ عمل کئی سالوں سے پریکٹس میں ہے اور اس کے سدباب کے لئے کئی قوانین بھی تشکیل دیے گئے ہیں بلکہ حال ہی میں کچھ ایسا ہی ایک بل یا قانون ہمارے یہاں بھی بنایا گیا لیکن اس کا اطلاق کس حد تک فعال ہے اس کا اندازہ یا نتیجہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔

سائیبر سٹالکنگ/بلئینگ کرنے والے کے پاس کیا کیا props یا آلہ کار ہیں۔۔

اس کے طریقہ میں سب سے پہلے سٹالکنگ ہے اس کے بعد ٹرولنگ ہے اور پھر بلئینگ کا ہتھیار موجود رہتا ہے۔ چونکہ وہ یہ سب کچھ عمومی طور پر ایک بے نام anonymous account سے کر رہا ہوتا یا پھر باقاعدہ کسی منظم گروہ کی شکل میں اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے تو اسے پکڑنا یا کچھ کہنا یا اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے فرد یا گروہ کا مقصد اپنے ہدف یا شکار کی نیک نامی، عزت، ساکھ، سکون اور چین کو مکمل طور پر تباہ کرنا اور اسے کلی طور ہراساں اور خوفزدہ کرنا ہوتا ہے۔ اپنی اس قبیح خواہش کی چاہ میں وہ اخلاقی طور پر کسی حد تک بھی گر جاتا ہے۔ اس کے لئے وہ اپنے شکار کے فرینڈز سرکل، تعلقات اور رشتوں اور اور اگر شکار تنظیم ہے تو اس تنظیم یا ادارے کے پارٹنرز اور کسٹمرز اور سپلائیرز تک براہ راست پہنچتا ہے، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتا ہے اور اپنے شکار یا ہدف کی نجی معلومات جیسے ای میلز، میسجز، تصاویر وغیرہ کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ کئی بار وہ اس ذاتی معلومات کو فوٹو شاپ کرتا ہے، جھوٹی پوسٹس بناتا ہے، سنسی خیز جھوٹی افواہوں کا بازار گرم کرتا ہے یا بلاگز و گفتگو کے تھریڈز بناتا ہے۔ پھر اس مرتب مواد کو ان باکس یا ای میل یا گروپ ڈسکشنز یا ٹرینڈز کی شکل میں اپنے شکار/ ہدف سے منسلک افراد یا عام عوام تک بھی لے کر جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کر پائے تو پھر بے نام اکاؤنٹ anonymous account سے اپنے شکار/ہدف براہ راست پہنچتا ہے اور اس کے اعصاب و صبر کو بھرپور طور پر آزماتا ہے۔ ایسے سٹالکرز اور بلئیر آپ کے پاسورڈ بھی آسانی سے توڑنے پر مہارت رکھتے ہیں اور آج کل موجود سپائینگ ایپس spying apps بھی اس کی ہر طرح سے معاونت کرتی ہیں۔

اگرچہ اس کا آئی پی ایڈریس جنریٹ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل کے اس میڈیائی دور میں آئی پی ایڈریس کو ری راؤٹ reroute کرنا بھی بے حد آسان عمل ہے۔

اب جو سوال سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ بھلا کیوں کسی فرد یا ادارے کی کردار کشی، بدنامی، ذلت اور تباہی کا خواہاں ہو گا؟

اپنے اس جواب کو جاننے کے لئے میں نے بہت سے ماہر نفسیات کے تجزیے پڑھے جو ان سائیبر سٹالکرز یا سائیبر بلئیرز کی نفسیاتی گرہیں کھولتے، کھنگالتے اور اس کی جڑوں اور تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سیم ویکنن (Dr.Sam Vaknin) اپنے ایک آرٹیکل (The Stalker as Antisocial Bully) “دا سٹالکر ایز اینٹی سوشل بلئیرز” میں لکھتے ہیں کہ

“سٹالکرز خود پرستی اور نرگسیت کی خصلت کے مالک ہوتے ہیں اور کئی ایک ان میں منتشر و ٹوٹی پھوٹی شخصیت کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ کینہ پرور سٹالکرز عمومی طور پر سائیکو پیتھ ہوتے ہیں اور وہ بلئیرز کی کلاسیکل تعریف پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ ”

عمومی طور پر ماہر نفسیات کی ایک بڑی تعداد ایسے سٹالکرز اور بلئیرز کو Psychopaths کہتی اور سمجھتی ہے۔ ایسے افراد کے لئے ایک نفسیاتی لیگل ٹرم \"20150154c15ea7265c1\"

Cyberpaths یا Psycho-Cyberpaths اخذ کی گئی ہے جو Psychopaths سے ہی مشتق ہے۔ سائیکو پیتھ کی ٹرم کو سمجھنے کے لئے اگر آپ امریکن ہیریٹیج ڈکشنری کھولئے تو تعریف کچھ یوں بیان ہے کہ “سائیکو پیتھ وہ فرد واحد ہے جو تمدن بیزار اور منتشر شخصیت کا حامل ہے۔ اور اس کا برملا اظہار وہ اپنے جارحانہ و غاصبانہ ڈھنگ سے بھٹکے ہوئے، مجرمانہ اور غیر اخلاقی رویوں سے کرتا ہے۔ جس پر اسے کسی بھی قسم کی ہمگدازی، شرمندگی، دکھ یا پچھتاوا نہیں ہوتا۔ “

دی نیویارک ٹائمز میں Jane E.Brody اپنے مضمون Research Unravel the Motives of Stalker کو کچھ اس طرح کھولتی ہیں ہیں کہ “اسٹالکرز لاکھوں امریکیوں کی زندگیوں کو برباد کر رہے ہیں”۔

جین اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ امریکہ میں بیس میں سے ایک خاتون، زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں سٹالک کی جاتی ہے اور یہ اعداد و شمار اگست ۱۹۹۸کو شائع ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سٹالکنگ یعنی تعاقب اور جاسوسی ایک صدیوں پرانا عمل ہے جسے غیر قانونی عمل کی حیثیت پہلی بار 1990 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں دی گئی۔ یاد رہے یہاں میں جو بھی موازنہ پیش کروں گی وہ امریکی اعداد و شمار کے مطابق ہو گا کیونکہ اگر دیگر ممالک کے تجزیے رکھے گئے تو بات لمبی ہو جائے گی جب کہ پاکستان کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار پیش کرنا یہاں ممکن نہیں کیونکہ 1998 سے لے کر آج تک ہم بطور قوم مردم شماری تک نہیں کروا پائے تو ایسے میں ان سرویز کی کہاں گنجائش نکلتی ہے۔

اپنے اس آرٹیکل میں جین نے سٹالکنگ پر لکھی گئی پہلی کتاب “The Psychology of Stalking” دا سائیکولوجی آف سٹالکنگ سے حوالہ جات پیش کئے ہیں۔ دا سائیکالوجی آف سٹالکنگ کے ایڈیٹر (Dr.J.Reid Moley) ڈاکٹر جے ریڈ مولی جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ہیں ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ

“سٹالکرز کی فطرت میں میں نفسیاتی خلل اور شخصی انشار۔۔۔ دونوں کی جانب میلان ہے۔ جو سٹالکرز اجنبیوں کو سٹالک کرتے ہیں وہ سائیکوٹک یا نفسیاتی خلل کا شکار \"fvkt7m6373652\" ہوتے ہیں جب کہ دوسری کٹیگیری کے سٹالکرز جو اپنی پرانی آشنائیوں اور تعلقات کی بنا پر سٹالکنگ کرتے ہیں وہ عمومی طور پر نشے کے عادی اور دوسروں پر انحصار کرنے والی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں وہ شخصی و ذہنی انتشار کر شکار ہوتے ہیں۔

کل تئیس ماہرین کے تجزیوں اور مضامین پر مبنی اس کتاب میں بقول ڈاکٹر کریسٹین سبھی شرکاء اس امر پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ

“سٹالکر کے لئے کوئی ایک خاص نقشہ یا تعریف طے نہیں کہ وہ ہوبہو ایسا ہی ہو گا۔ ”

جبکہ دوسری جانب فلورا Flora Loveday اپنے ایک بلاگ “The UPPER Hand” میں سٹالکر اور بلئیرز کو کلی طور پر سائیکو پیتھ کہتے ہوئی لکھتی ہیں کہ

“A psychpath ain’t a professional, you can’t work with a psychopath”

“سائکو پیتھ کوئی پروفیشنل نہیں ہوتا، آپ کسی سائیکو پیتھ کے ساتھ کام نہیں کر سکتے”

سٹالکرز کے بیک گراؤنڈ اور نفسیاتی پروفائیل پر سب سے پہلی عملی تحقیق Dr.kristine.K.kenlien نے کنڈکٹ کی۔ قریباََ چوبیس حضرات جن کا انٹرویو لیا گیا ان میں آدھے سے زیادہ میں attachment disorder (دوسروں سے وابستگی کا ذہنی خلل) کے ثبوت پائے گئے اور یہ تمام افراد بری طرح شخصی انتشار و ٹوٹ پھوٹ اور دماغی و ذہنی خلل کا شکار تھے۔

ان تمام افراد میں جو مشترکہ انتشار تھا وہ ان کا narcissistic personality disorder یعنی یہ خود پسندی، خودنمائی اور نرگسیت کا شکار تھے جو کریسٹین کے مطابق ان کو ایک inflated sense یعنی ایک مغرورانہ و تفخرانہ احساس سے بھر دیتا ہے اور ان کو خود اعتمادی عطا کرتا ہے اور وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ سراہے اور پوچھے جائیں۔

ڈاکٹر کریسٹین کہتی ہیں کہ، “کئی سٹاکرز کو نفسیاتی بیماریاں در پیش ہوتی ہیں جیسے ماضی کے دکھ، حال کا خوف، مرضِ شقاق، پراگندہ ذہن، انتہا پسند رویے و عقائد جب کہ زیادہ تر ان میں منتشر شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور خودپرستی یا نرگسیت، دوسروں پر انحصار کرنا یا قریبی تعلقات کو بجا طور سے نبھا نہ پانا جیسی کیفیات سے دو چار رہتے ہیں۔

Stalkers exhibit a broad range of behaviors, motivations and psychological traits

مندرجہ بالا سکالرلی آرٹیکل میں ڈاکٹر کریسٹین سٹالکرز کو ان کے attachment disorder (دوسروں سے وابستگی کا ذہنی خلل) کے تناظر میں تین کٹیگیریز میں بانٹتی ہیں

پری_آکوپائیڈ سٹالکرز (محو و مگن ) ___(preoccupied stalkers) جو خود اپنی ذات کے بارے میں منفی خود تصوری (poor self-image) کا شکار ہے البتہ وہ دوسروں کے بارے میں مثبت خیالات رکھتا ہے تسلسل سے دوسروں کی حمایت اور توثیق کا متلاشی رہتا ہے تاکہ اپنی ذات میں اچھا محسوس کر سکے۔ جب یہ مسترد کیا جاتا ہے تو اپنی انا کی بحالی کے لئے سٹالکنگ کو چنتا ہے۔

فئیر فل سٹالکرز سہمے یا ڈرے ہوئے (fearful stalkers)، یہ بھی منفی خود تصوری (poor self-image) کے حامل افراد ہیں اور دوسروں کو بھی ناقابل اعتبار اور غیر معاون گردانتے ہیں۔ ان سٹالکرز کی فطرت میں یہ میلان موجود ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنس جائیں کہ جہاں کسی شخص کی طلب، چاہ اور موجودگی ان کی انا کو تحریک دیتی ہے اور پھر وہ جلد اس کو ناقابل اعتبار گردانتے ہوئے مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کی فطرت ان کو پھر اکساتی ہے کہ وہ سٹالک کریں کیونکہ ان کو دوبارہ سے کسی ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جس کی چاہ ان کی ڈوبتی اور معدوم ہوتی انا کو بالیدگی اور تحریک بخشے۔ (میری ناقص رائے کے مطابق چونکہ یہ ایک شیطانی چکر ہے تو یہ چکر مسلسل چلتا ہے۔۔۔ وہ بار بار بے اعتباری کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہی چنے ہوئے ہدف کو رد کرتے ہیں اور بار بار اپنی دم توڑتی انا کے فروغ و بقا کے لئے دوبارہ سٹالکنگ کرتے ہیں۔)

ڈسمسنگ سٹالکرز (مستردی و غیر مطلوب)  (dismissing stalkers)، یہ سٹالکر دوسروں کو بیوقوف اور کند ذہن گردانتا ہے اور عمومی طور پر ان سے ایک فاصلے پر رہتا ہے تاکہ اپنے نرگیست و غرور پر مبنی خود تصوری کی ساکھ کو برقرار رکھ سکے۔ اس ڈسمسنگ شخصی بدنظمی سے جڑے سٹالکرز اپنے تعلقات و آشنائیوں کے ٹوٹنے پر اس حد تک ناراض و نالاں ہو جاتے ہیں کہ پھر وہ بدلے اور انتقام کی آگ میں سٹالکنگ پر اتر آتے ہیں تاکہ اپنے شکار/ہدف کے ناروا سلوک کی پاداش میں بھرپور جوابی کارروائی کر سکیں۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے افراد نہ صرف نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں بلکہ آمرانہ مزاج کے حامل بھی ہوتے ہیں۔

مزید برآں ڈاکٹر کریسٹین کہتی ہیں کہ یہ سٹالکرز ایسے کمزور افراد ہیں کہ مسلسل ناکامی اور نقصان نے ان کی خود اعتمادی کی حس کو بری طرح ختم اور تباہ کر دیا ہے اور یہ اپنے دکھ کے خاتمے اور اندر چھپے خالی پن کے احساس کی تلافی سٹالکنگ کے ذریعے کرتے ہیں اور کئی بار اپنے وکٹم یا شکار کو اپنے نقصان یا حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

ہم اب تک یہ تو بہت اچھے سے سمجھ گئے کہ سائیبر سٹالکر /سائیبر بلئیرز کیا ہے، کون ہے، اور اس کے ایسا ہونے میں کیا عوامل پس پردہ ہیں۔ پھر یہ کہ وہ کیسے، کس طرح، کن ہتھکنڈوں اور طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی کی بھی زندگی کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ چونکہ اس کے سفلانہ جذبات کی آبیاری ہی اپنے مخالف کی بدنامی اور ذلت میں پوشیدہ ہے تو وہ اپنے اس مقصد کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ اب ہم آتے ہیں اصل اور اہم ترین نکتے کی جانب کہ ہمیں سائیکو سائیبر پیتھ سے کس طرح بچنا ہے اور اپنے اعصاب، عقل، فہم، فراست، سوجھ بوجھ اور ٹھہراؤ کو کس طرح تقویت و ترویج دینی ہے۔ یوں تو بے شمار سوشل ویب سائیٹس ہمیں سائیبر بلئینگ کو ہینڈل کرنے کی ان گنت تراکیب اور طریقے بتاتی ہیں لیکن ان میں جو نو اہم اور کار آمد سٹریٹجیز ہیں وہ میں یہاں تحریر کروں گی۔

1۔ جوابی کارروائی سے اجتناب (Never Respond) :

دیکھنے میں آیا ہے اور تجربے سے سیکھا ہے کہ ٹرولنگ اور بلئینگ کے جواب میں یا کسی بھی ناپسندیدہ بات، عمل، پوسٹ، تھریڈ، گالی، بے عزتی یا تمسخر اڑائے جانے کے ردِعمل کے طور پر، ہوش و حواس کھو کر اور شدید صدمے کا شکار ہوکر جب بھی جوابی کارروائی کی گئی مسئلہ مزید طول پکڑتا گیا۔ سو ایسے میں اپنے حواس مجتمع رکھئے اور صبر و حوصلے کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ کیجئے اور اگر ایسا ناممکن ہے تو کچھ روز کے لئے خود کو سوشل میڈیا سے دور کر لیجئے۔

2۔ سکرین شاٹ یا کمپیوٹر پر یاداشت محفوظ کر لیجئے (Keep screen shots ) :

کسی بھی قسم کی بلئینگ یا دھمکی کو احتیاطی طور پر سکرین شاٹس کے ذریعے محفوظ کر لیجئے یا پھر اسے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں۔

3۔ بلاکنگ اور رپورٹنگ (block and report the bully) :

سوشل میڈیا کے جس پلیٹ فارم پر آپ کو ستایا جا رہا ہے اور جس اکاؤنٹ سے آپ کو ہراساں کیا جا رہا ہے اس کی باقاعدہ رپورٹ درج کیجئے اور اس اکاؤنٹ کو بلاک کر دیجئیے۔

4۔ بات کیجئیے۔۔۔ (Talk about it):

خود کو بالکل تنہا نہ کیجئے اپنے قریبی رفقاء اور گھر والوں سے اس کا تذکرہ ضرور کیجئیے۔ بات کرنے سے آپ کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا اور اور آپ کو ایک مستقل سپورٹ یا معاونت اور ڈھارس ملے گی البتہ جو لوگ اس معاملے میں دل چسپی ظاہر نہ کریں تو دوبارہ ان کو زحمت نہ دیجئے بلکہ اپنے اصل دوست اور ہمدرد پہچان لیں۔

5۔ معاملے کی سنگینی بھانپنا۔۔ (Assess the seriousness) :

اگر تو کوئی شخص محض آپ کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور آپ کو زچ کر رہا ہے اور آپ نے اسے اس کے اسلوب اور افکار سے پہچان لیا ہے یا پھر وہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ہی یہ سب کر رہا ہے تو اسے بلاک اور رپورٹ کر دیجئیے۔

6۔ رپورٹ کیجئے (Report it) :

اگر کوئی سکول یا کالج کے زمانے کا پرانا ساتھی ہے جو آج آپ کو ستا رہا ہے تو والدین کے علم میں فوری طور پر اس بات کو لائیں۔ سب سے خطرناک صورت یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کی نیک نامی اور سکون کے درپے ہو گیا ہے تو پولیس، ادارے اور گھر والوں کو بتایئے تاکہ پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے ہی سانپ کا سر کچلا جا سکے۔

7۔ پرائیویسی سیٹنگز (privacy settings) :

اگر آپ خود کو بہت غیر محفوظ اور ڈرا ہوا محسوس کرتے ہیں تو اپنی پرائیویسی سیٹنگز مضبوط کر لیجئیے۔ کم سے کم بات چیت اور تعلقات بنایئے۔ کسی اجنبی پر بالکل بھروسہ نہ کیجئیے۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے۔۔۔ بہت ممکن ہے کوئی آپ کے نانا کی عمر کا شخص انتہائی خطرناک عزائم کا مالک ہو اور بظاہر ایک گھریلو خاتونِ خانہ دکھنے والی عورت در حقیقت کوئی مرد ہو یا کوئی نوجوان لڑکی کے روپ میں بات کرنے والا اندر سے ایک لڑکا نکل آئے۔

8۔ بات کیجئے (Talk to them ):

کوشش کر کے کوئی ثالث یا کامن فرینڈ تلاش کیجئے جو آپ کے اور بلئیرز کے مابین ایک سمجھوتے کی فضا قائم کر سکے اور آپ دونوں کو آمنے سامنے یا گروپ ڈسکشنز میں سمجھا بجھا سکے۔ اس طرح سے بلئینگ کرنے والا اور آپ دونوں ہی کسی حد تک کنٹرول میں آجائیں گے۔ جب ایک مساوی اور غیر جانبدار ماحول میں بات چیت ہوگی لیکن اس کے لئے کسی سمجھدار اور پرخلوص ثالث کا ہونا بے حد ضروری ہے ورنہ معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے۔

9۔ ہمدردی کا اظہار کیجئے (Sympathize the bully):

ہمیشہ یاد رکھئے کہ پرسکون، مطمئن اور محفوظ فرد کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ جو لوگ بلئینگ یا ٹرولنگ کرتے ہیں انہوں نے زندگی میں بہت سے تکلیف دہ لمحات دیکھے ہوتے ہیں یا پھر مسلسل تکلیف سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا اضطراب، محرومیاں، دکھ اور احساسات ان کی تحریر اور مزاج سے عیاں ہو جاتے ہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں اپنی ذات کا ادھورا پن اور اپنے دل کی گھٹن نہ چاہتے ہوئے بھی لکھ جاتے ہیں ایسے لوگ واپسی میں آپ کی نفرت یا گالیوں کے نہیں بلکہ ہمدردی، تعاون اور ترس کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments