صبیحہ خانم بھی رخصت ہوئیں


سال 2002 ء کے وسط کا کوئی مہینہ تھا۔ میں امریکہ میں کچھ عرصہ گزار کر بچوں کو لینے پاکستان واپس گیا ہوا تھا۔ ایک دن فیملی کے ہمراہ امریکی سفارت خانہ اسلام آباد میں ویزوں کے حصول کے لیے جانا ہوا۔ انٹرویو کے لیے مقررہ دن میں بھی بچوں کے ہمراہ ایمبیسی کے باہر زگ زیگ بناتی لمبی لائن میں کھڑا تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔

سفارت خانے کی جانب سے عمارت کے باہر ویزہ درخواست گزاروں کے لیے سایہ مہیا کرنے کی غرض سے بنایا گیا لوہے کا شیڈ ناکافی ثابت ہو رہا تھا۔ لائن میں چلتے چلتے کہیں کہیں دھوپ آ جاتی اور کہیں شیڈ کی وجہ سے گرم سایہ۔

قطار آہستہ آہستہ کھسکتی آگے سے کم اور پیچھے سے بڑھتی رہی۔ ایسے میں عمارت کے اندر داخل ہونے تک جب پچاس کے قریب لوگ میرے آگے رہ گئے۔ تو میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے کوئی دس پندرہ لوگ آگے ایک معمر خاتون چھوٹے سے سٹول کے سہارے کبھی بیٹھ جاتی۔ اور لائن کے آگے بڑھنے پر اٹھ کر پھر آگے جاتی اور سٹول پر بیٹھ جاتی۔

یہ سلسلہ میں کافی دیر تک چلتا رہا۔ اسی اثناء میں میرے آگے کھڑی ایک فیملی میں سے کسی نے آپس میں بات کی کہ سٹول پر بیٹھی خاتون اداکارہ صبیحہ خانم ہیں۔ مجھے یہ نام سن کر کچھ اچنبھا ہوا۔ میں اپنی تسلی کرنے کی غرض سے لائن سے نکل کر سائیڈ سے ہوتا ہوا دیکھنے آگے گیا۔ اور جا کر دیکھا تو ماضی کی حسین وجمیل اور پری وش اداکارہ کی بجائے پسینے سے شرابور ایک سرخ وسفید رنگت کی ماں جی بیٹھی ہوئی تھیں۔

ماضی میں رہی یہ جواں سال اور خوش جمال خاتون واقعی صبیحہ خانم تھیں۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر اچھا محسوس نہ ہوا۔ میں نے انہیں سلام کیا اور خوشدلی سے مسکرا انہوں نے جواب دیا۔ یقیناً کوئی ان کے ساتھ وہاں ہو گا۔ اس ایک ڈیڑھ مننٹ کے اندر اندر ہی وہاں متعین سیکورٹی اہلکاروں میں سے ایک میرے سر پر پہنچ گیا۔ اور مجھے درشتگی سے اپنی لائن میں واپس جانے پر اصرار کرنے لگا۔ مجھے یوں ایک عظیم فنکارہ کی اتنی سخت گرمی میں اس طرح بیٹھے دیکھ کر افسوس ہوا۔

میں نے ہمت کی اور سکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے واپس لائن میں چلیں کہتا ہوا بادل نخواستہ میری بات سننے آمادہ ہوا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ کیا وہ جانتا ہے کہ سٹول پر بیٹھی معمر خاتون کون ہیں؟ وہ ان کی جانب دیکھتا ہوا بولا کہ ”نہیں“ ۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ ماضی کی نامور اداکارہ صبیحہ خانم ہیں۔ اتنا سننے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب پہلے کے مقابلے میں اس کے چہرے پر تناؤ کی جگہ پر تھوڑی سی خوشگواری عود کر آئی ہے۔

میری بات سن کر وہ صبیحہ خانم کی طرف دیکھتا ہوا سیدھا استقبالیہ کمرے کے اندر گیا اور تھوڑی ہی دیر اپنے کسی سینئر سے ہدایات لے کر واپس آ کر سیدھا صبیحہ بیگم کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ ”بیگم صاحبہ! آپ اندر آ جائیں“ ۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد صبیحہ خانم لائن میں کھڑے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے آمادہ ہو گئیں۔

اور آٹھ کر جب اندر جانے لگیں تو انہوں پیچھے مڑ کر میری جانب دیکھا۔ پسینے سے لبریز ان کے دمکتے چہرے پر اظہار تشکر کے ان گنت جگنو ان کی آنکھوں میں ٹمٹا رہے تھے۔ یہ میری ان سے پہلی اور آخری مختصر سی ملاقات تھی۔ مجھے ہمیشہ یہ چیز مسرت دیتی رہی کہ میری ایک بروقت اور حقیر سی سعی ان کی زندگی میں راحت پیدا کرنے کا سبب بنی۔ پھر امریکہ میں رہتے ہوئے محتلف تقریبات میں وہ کبھی کبھار اپنی پوتی کے ہمراہ شریک ہوتی نظر آ جاتیں۔

پھر 2014 ورجینیا میں مقیم دوست جاوید اکرام شیخ نے اپنی فیملی کے ہمراہ صبیحہ خانم کی تصاویر شیئر کییں جن میں وہ بڑی ہشاش بشاش دکھائی دے رہی تھیں۔ شیخ صاحب نے بتایا کہ ”وہ تقریب ان ایک دوست محبوب کے بیٹے کے عقیقے کی تقریب تھی۔ جس میں صبیحہ خانم بھی شریک تھیں جب میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی گجرات سے ہوں تو انہوں نے مجھے اور میری بیگم سے کہا کہ آپ میرے پاس بیٹھیں اور وہ میری بیوی کے ساتھ دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ وہ بہت ملنسار اور اچھے اخلاق کی وضع دار باکمال شخصیت تھیں“ ۔

آج ورجینیا میں جاوید اکرام شیخ کے ذریعے ہی پتہ چلا کہ ماضی کی سپرہٹ اور لیجنڈ اداکارہ صبیحہ خانم امریکہ میں انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔ صبیحہ خانم کی رحلت سے گویا پاکستان کی فلم انڈسٹری کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔

صبیحہ خانم گجرات شہر کے محلہ فتو پورہ میں 16 اکتوبر 1935 کو محمد علی اور اقبال بیگم کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کا پہلا نام مختار بیگم رکھا گیا تھا۔ تاہم وہ اپنے فلمی نام صبیحہ خانم سے جانی اور پہچانی گئیں۔ اسی نام نے ان کی شہرت کو دوام بخشا۔ ان کی والدہ گجرات میں ”بالو جٹی“ کے نام سے مشہور تھیں۔ اور والد ”ماہیا“ کے نام سے جانے جاتے تھے۔

صبیحہ خانم نے ابتدائی تعلیم گجرات میں حاصل کی۔ بعدازاں چھوٹی عمر میں ہی فلم انڈسٹری میں چلی گئیں۔ جہاں انہوں نے اپنی لازوال اداکاری کی بدولت شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ اور ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب فلموں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی چلی گئیں۔

ماضی کے معروف اداکار اور گلوکار عنایت حسین بھٹی مرحوم بھی گجرات میں صبیحہ خانم کے محلے دار تھے۔ دونوں ہم عصر بھے رہے۔ عنایت حسین بھٹی کا چند سال پہلے انتقال ہوا ہے اور وہ گجرات کے مقامی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

1958 میں صبیحہ خانم کی اپنے وقت کے سپر اسٹار ہیرو سنتوش کمار (سید موسیٰ رضا) سے شادی ہوئی جو 1982 تک کامیابی سے چلی۔ ان کے تین بچے ہیں۔ جن میں سید احسن رضا، فریحہ شہریار اور عافیہ چوہدری شامل ہیں۔

ویکی پیڈیا کے مطابق 1950 میں اپنی پہلی فلم میں صبیحہ خانم نے ہدایت کار مسعود پرویز کی فلم ”بالی“ میں کردار ادا کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سنتوش کمار اور شاہینہ تھے۔ فلم کامیاب ہوئی۔ پھر انور کمال پاشا کی ”نوری“ اور ”دو آنسو“ نے ان کی کامیابی کے دروازے کھول دیے۔

سنتوش کمار کے ساتھ ان کی جوڑی خوب ہٹ ہوئی۔ پھر گمنام، دولا بھٹی، مکھڑا، مسکراہٹ، رشتہ، حسرت، عشرت، شکوہ اور ایک سے بڑھ کر ایک فلم ان کے کیرئیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

1986 میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور چھ بار فلمی ایوارڈ نگار جیتا۔ 1950، 1960 اور کچھ سال 1970 کے صبیحہ خانم کے عروج کا زمانہ تھا۔ 1950 سے لے کر 1992 تک فلم انڈسٹری میں متحرک رہتے ہوئے انہوں نے سینکڑوں فلموں اور ڈراموں میں سپرہٹ کردار ادا کیے۔

گزشتہ کئی سال سے صبیحہ خانم اپنے بچوں کے پاس امریکہ میں مقیم تھیں۔ اور آج کل وہ ریاست ورجینیا کے لیسبرگ (Leesburg) ٹاؤن میں رہ رہی تھیں۔ جاوید اکرام شیخ کے مطابق صبیحہ خانم فیملی نے کہا کہ صبیحہ خانم کے چاہنے والے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم زوم اور سکائی اپ کے ذریعے اظہار افسوس کر سکتے ہیں یا پیغامات ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔ صبیحہ خانم کے فیونرل اور جنازہ میں صرف محدود تعداد میں چند لوگ ہی شریک ہوں گے۔ اور انہیں ورجینیا میں ہی سپرد خاک کیا جائے گا۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری کی یہ عہد ساز شخصیت اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن صبیحہ خانم گزشتہ روز مورخہ 13 جون 2020 ء کو 85 سال کی عمر میں ہم سے جدا ہو گئیں۔

پروفیسر جاوید اکرام شیخ اپنی اہلیہ کے ہمراہ صبیحہ خانم سے ملتے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments