”ٹیکس فری“ یا ”غریب فری“ بجٹ


قارئین کرام! پچھلے برس بجٹ پر اپنے ادنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کسی شاعر کی مانند محبوب کی یاد میں کھونا پڑا تھا بلکہ راقم کو خشک پتوں کی مانند اسلام آباد کی سڑکوں پر بکھرنا بھی پڑا تھا۔ امسال ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں آئی۔ نا تو کسی اردو دان کی لکھی ہوئی بجٹ تقریر تھی اور نا ہی حالیہ بجٹ کی تیاری میں کسی ماہر غذائیت کی خدمات لی گئیں۔ نا تو ریاست مدینہ ثانی کا ذکر اور نا ہی ٹیکس کی منصوبہ سازی۔ پس یہ ثابت ہوا کہ بجٹ 2020۔ 21 سابقہ ادوار میں پیش ہونے والے بجٹ میزانیوں / تخمینوں سے بالکل مختلف ٹھہرا نا تو الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے اور نا ہی ٹیکس کا گورکھ دھندہ۔ فقط تبدیلی زدہ حکومت کا اک تبدیلی زدہ بجٹ۔ جو گردان تھی ٹیکس فری ’ٹیکس فری اور ٹیکس فری کی۔

زندگی میں پہلی بار سرکاری ملازم نہ ہو نے پر فخر محسوس ہوا۔ اور شاید پہلا موقع ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت لگنے لگی ہے۔ مشروبات تو ہونے ہی غریبوں کی پہنچ سے دور چاہیں خواہ وہ کیفین زدہ ہوں یا الکحل زدہ۔ بلکہ مشروبات ساز اداروں کو ہر بوتل پر یہ اگزلری لیبل چسپاں کرنا چاہیے۔ انتباہ۔ غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ خوشی ہوئی کہ ایک عام شہری اب بنا شناختی کارڈ ایک لاکھ تک کی خریداری کر سکتا ہے۔ اب یہ دل ناداں کسی عام شہری کو یک مشت 1 لاکھ کی خریداری کرتے ہوئے دیکھنے کا تمنائی ہے۔ دوستو! میری نظر میں یہ واحد ریلیف ملا ہے غریب محب وطن کو۔ باقی آپ میری اس بات سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔

خیر حقیقی ریلیف بارے بھی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ گزشتہ بجٹ میں حقیقی ریلیف آزاد امیدوار متاثرہ شخص کو ملا تھا جی آپ ٹھیک سمجھے وہی چینی چور۔ اب کہ بجٹ میں کچھ درآمد شدہ بریف کیس والے حقدار ٹھہرے۔ (خیر سانو کی) ہماری نہ شوگر مل اور نہ تعمیرات سے کوئی واسطہ۔ (نہیں نہیں میں نام نہیں بتاؤں گا۔ ) بس یہ حسرت ہے کہ اگلے بجٹ تک وہ بھی کسی کمیشن کے ہتھے چڑھ جائیں۔

آپ نے محاورہ تو سنا ہو گا۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔

تعلیم و صحت کے ساتھ حسب معمول سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ حکومتی معاشیات دان جو اعداد و شمار کا فرق بتا رہے ہیں اس کے لیے بھی ہم کورونا کے بے حد ممنون ہیں۔ کچھ ایسا ہی مذاق کہیں نام بدلنے والے ”احساس پروگرام“ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگر ابھی بھی محاورے کی سمجھ نہیں آئی تو کوئی اچھی سی اردو لغت تلاش کریں۔

بجٹ بنانے والے امیر اس غریب کو تو بھول ہی گئے جو بیچارہ تبدیلی کا غم لے بیٹھا ہے۔ مزدور کی کم از کم اجرءت بارے بجٹ خاموش ہے۔ اس کنجوسی کی سمجھ نہیں آئی۔ حالانکہ بس ایک سطر ہی ہوتی ہے بجٹ تقریر کی۔ باقی تو سیٹھ جانے، غریب مزدور جانے اور اجرءت جانے۔

اور میں بھی بجٹ بارے اپنی تحریر میں کنجوسی کا ہی مظاہرہ کرنے لگا ہوں کیونکہ بندہ ناچیز ایک ”مجبور“ محب وطن پاکستانی ہے۔ اوپر سے جناب عدنان خان کاکڑ کی نت نئی مختصر ترین کالم بارے تحقیقات سے متاثر۔
دوستو! گھبرانا نہیں ابھی تو سفر کا آغاز ہے ابھی تو ہم نے غریب فری بجٹ تک کا سفر طے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments