شیطان ہمارا محسن ہے


ابو کا خیال تھا کہ اقبال سے بڑا شاعر سرزمین ہند پر پیدا نہیں ہوا۔ امی میر اور غالب سے آگے کسی کو ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ اس کشاکش میں ہم نے تینوں کو پڑھ ڈالا اور ان کے بیچ آنے والے ان شاعروں کو بھی جن کو کوئی کسی شمار و قطار میں رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ کچھ عرصہ گزرا تو یہ راز کھلا کہ شاعری تقابل کی چیز نہیں ہے۔ اقبال کی نظم کو غالب کی غزل اور انیس کے مرثیے کے ساتھ ترازو میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان پر زندگی ایک رنگ میں نہیں گزرتی۔ ہر زہر کے لیے الگ تریاق ہے اور ہر وقت کے لیے الگ راگ ہے۔ شاعر پر ٹھپے نہیں لگانے چاہئیں اور شاعری میں پیغام کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔ بڑا شعر خود اپنی تفہیم ہوتا ہے اور بڑے شاعر کو بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔

پر ہم کہاں کسی چیز کو خالص رہنے دیتے ہیں۔ لاہور شہر کی دیواروں پر رواج ہے کہ ایک پوسٹر کے اوپر دوسرا اور دوسرے کے اوپر تیسرا لگاتے چلے جاتے ہیں۔ امتداد اپنا کام کرتا ہے۔ کچھ عرصے میں پوسٹر بوسیدہ ہوتے ہیں تو کسی کا اوپری حصہ جھڑ جاتا ہے کسی کا بیچ والا۔ ایک پوسٹر دیوار سے جڑی اپنی جگہ چھوڑتا ہے تو اس کا نصف ہوا کی نذر ہو جاتا ہے باقی وہیں کسی اور پوسٹر کے ساتھ یوں مدغم ہو جاتا ہے کہ دونوں کے لفظ پہچانے نہیں جاتے۔ ایک دن آتا ہے کہ کچھ بھی پڑھنے میں نہیں آتا۔ سارے پیغام، سارے اشتہار ایک گنجلک معمہ بن جاتے ہیں۔ رہی دیوار تو وہ ان پوسٹرز کی اس لایعنی کائنات میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔

اقبال کے اوپر بھی ہم نے اتنے لیبل لگا دیے کہ اقبال کہیں گم ہو گیا۔ اب رحمتہ اللہ علیہ، مفکر پاکستان، شاعر مشرق، فلسفی ہند، رہنمائے ملت، پاسبان دین وغیرہ وغیرہ کا ایک ملغوبہ سے ہے جس سے ہر کوئی اپنی مرضی کا اقبال برآمد کرنے پر بضد رہتا ہے۔ جن کو پتھر اچھالنے ہیں، وہ اپنا جمرات بھی اسی رنگ برنگی مٹی سے بنا لیتے ہیں۔ دن رات یہی تماشا چلتا ہے اور بیچ میں وہ اقبال جو میرے باپ کو پسند تھا کہیں گم ہو جاتا ہے۔

میرے بچپن اور نوجوانی میں جو اقبال مجھے دیا گیا وہ ان ملاوٹوں سے پاک تھا۔ بتا دیا گیا تھا کہ اقبال پر سکول میں پڑھائے گئے اسباق صرف اس لیے سننے ہیں کہ امتحان میں انہیں دوبارہ لکھ کر نمبر لیے جا سکیں، اس سے زیادہ انہیں اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اقبال کا بت تراشنا نہیں سکھایا گیا، اقبال کی شاعری سے محبت کرنی سکھائی گئی۔ سو وہ ہم نے کل بھی کی، آج بھی کرتے ہیں۔ بت وقت کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں، محبت کا درخت مزید چھتنار ہو جاتا ہے۔ کیا عجب تھا کہ میں نے بھی ایک بت بنایا ہوتا تو آج وقت کے کسی دو افتادہ گرد آلود میوزیم میں وہ بت شیشے کی کسی دیوار کے پیچھے ایک ٹوٹی ہوئی ناک اور مسخ شدہ چہرے کے ساتھ بے فیض پڑا ہوتا۔ میں نے محبت کا بیج بویا۔ درخت تو نسلوں کو فیض دیتے ہیں۔

تقابل کرنا مقصود نہیں، نظریات کی جنگ بھی چھیڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جتنا اور جس قدر کوئی شاعر کسی کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اقبال بھی اتنا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ پسند ناپسند ذاتی واردات اور قلبی معاملہ ہے۔ اس لیے اس سے بھی بحث نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری کو مقصدیت کی جس فضول بھٹی میں جھونک کر ہم نے قوم کے لیے خنجر اور شمشیر بنانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ تو یوں بھی سامنے آ گیا ہے۔ میر کے دیوان سامنے رکھ لیجیے۔ زود گوئی کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ ہر شعر بڑا ہے نہ ہر غزل کمال ہے۔ خدائے سخن کے کسی شعر پر نقد کا محل تو نہیں نہ ہی میری اوقات ہے پر بعض اوقات کئی صفحے پلٹنے کے بعد کوئی شعر ملتا ہے جو دل میں ایسے اترتا ہے کہ پہروں بے چین رکھتا ہے لیکن اس کے بعد پھر کئی صفحے پلٹنے اور کتنے ہی اشعار پر حیرت ہوتی ہے کہ ہیں، یہ بھی میر کا ہے۔ چلیے چھوڑیے، صاحب، آگے بڑھیے۔ تو اس میں کیا حیرت ہے کہ اقبال کا بہت سا کلام بھی چھوڑیے، صاحب، آگے بڑھیے کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سارے کلام پر ہی خط تنسیخ پھیر دیا جائے۔ میر کو سنگھاسن سے اتارنا ممکن نہیں تو اقبال کو بھی مسترد کرنا اتنا ہی مشکل اور اتنا ہی غلط ہے۔ اقبال کو شاعر سمجھ کر پڑھیے، فلسفی، مفکر پاکستان اور محسن ملت سمجھ کر نہیں تو جہاں بہت سے باتوں سے اختلاف کرنے کو مواد میسر ہو گا وہاں ایسا ایسا مضمون ایسے ایسے رنگ میں ملے گا کہ جہان حیرت کے در وا ہوتے چلے جائیں گے۔

وبا کے دنوں میں خیال بندش سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سوال اٹھتے ہیں تو اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ خدا کے ماننے والے ایک جانب اس کی تقدیر پر راضی ہیں تو دوسری جانب اسی سے اس تقدیر کی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ تضاد گہرا ہے اور دلیل مفقود ہے۔ ازل سے ابد کے گم کردہ راستوں پر ایقان کی گہری دھند ہے۔ ایسے میں ہست کی معنویت پر شک ہوتا ہے تو اقبال یاد آتے ہیں۔ اقبال کا انسان جب اپنے شکوہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہو کر پورے قد سے بات کرتا ہے تو بندگی کے سارے سبق کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خاکم بدہن کہنا تو رسم ہے پر شکوہ کرنے میں زبان لڑکھڑاتی نہیں ہے۔ اس میں عاجزی نہیں ہے، کمزوری نہیں ہے۔ دست دعا اور دست طلب کا فرق یہیں نظر آتا ہے۔ یہ انسان گڑگڑاتا نہیں ہے، جواب مانگتا ہے۔ اور جواب کہیں نہیں ہے۔ سارا ابلاغ اچانک یک طرفہ ہو جاتا ہے۔

میں نے سوچا کہ انسان کے پاس یہ جرات آئی کہاں سے۔ تمثیل میں ہی سہی پر خالق سے بغاوت کا مخلوق سوچ ہی کیوں سکتی ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر کھیلے گئے ڈرامے کا سکرپٹ کون لکھتا ہے، کون اس میں ترمیم کرتا ہے۔ قصہ کہیے، کہانی کہیے پر اس میں سے جو نتیجہ ہم نکالتے ہیں، اس پر ایک نظر اور کیوں نہ ڈال لی جائے۔

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم، سفال آفریدی، ایاغ آفریدم کہنے والا انسان چراغ بناتا ہی کیوں ہے، سفال سے بت تراشنے والا پیالہ کیسے بنا لیتا ہے۔ اپنی فطرت میں صرف باغ بہشت میں لوٹ جانے کی بے پناہ خواہش رکھنے والا بیابان و کہسار و راغ کو خیابان و گلزار و باغ بنانے میں محنت کیوں صرف کرتا ہے۔ انسان کی دنیا اپنے تجربے میں واہمہ کیوں نہیں بنتی۔ باغ بہشت کو لوٹ جانے والوں کے لیے آنکھ دریا کیوں بن جاتی ہے اور جہنم کی آگ کی تپش اسے گناہ سے باز کیوں نہیں رکھ پاتی۔ انسان اپنی فطرت میں بندہ ہے یا باغی ہے۔ کیا بغاوت میں بندگی کے رنگ جھلکتے ہیں یا بندگی میں بغاوت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ خدا کا احسان اٹھائیے تو کیونکر اٹھائیے۔ عہد الست کو یاد کیجیے تو کس بنیاد پر یاد کیجیے۔

ان سوالوں میں جھونجھتے رہیے۔ پھر معلوم ہو گا کہ جواب قصے کی کسی اور رمز میں پوشیدہ ہے۔ دیکھیے اقبال کیوں یاد آتے ہیں۔ میں مکالمہ ابلیس و جبرائل کھولتا ہوں اور کہانی کا معتوب کردار اپنا مقدمہ میرے آگے رکھ دیتا ہے گویا اس کی عدالت اب بھی لگی ہے اور فیصلہ مجھے صادر کرنا ہے۔ دیکھیے، مجھے ابلیس کی مجلس شوریٰ بھی یاد ہے اور ابلیس کی خدا کے آگے عرضداشت بھی لیکن جبرائل و ابلیس کا ابلیس ایک الگ ہی ڈھنگ کا کردار ہے۔ مذہبی اسطورہ سے ہمارا ابتدائی تعارف ایک ایسے خدا کا تھا جو سراپا خیر تھا اور ابلیس سراپا شر۔ بہت سے اور مذاہب کے برعکس شر اور خیر کی قوت ہمارے یہاں برابر نہیں تھی۔ ان کے درمیان برابر کی ٹکر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں مقابلہ برابر نظر آتا تھا بلکہ اس ناقص دنیا کا جھکاؤ ہمیں اس جانب دکھائی دیتا تھا جدھر خالق خود نہیں کھڑا تھا۔

یہ بچپن کا تعارف تھا جب ہر شے سیاہ و سفید میں دکھائی دیتی تھی۔ شعور کی سرحد پر پیر دہرا تو سب کچھ سرمئی ہو گیا۔ پتہ لگا کہ ایک کا خیر دوسرے کا شر ہے۔ اور ایک کا شر کسی کے لیے خیر۔ کوئی عمل اپنی بنیاد میں قطعی نہیں ہے اور کوئی دلیل اپنی اصل میں مستحکم نہیں ہے۔ دیکھنے کا زاویہ بدلتا ہے تو منظر بھی بدل جاتا ہے، منظر نامہ بھی۔ اور زاویوں کا کیا ہے، ہر وہ لمحہ جو بیت رہا ہے وہ وقت کی جہت میں اپنا زاویہ خود بناتا ہے۔ اور یہ زاویے صرف تین سو ساٹھ نہیں ہیں۔ تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیے اور کوانٹم دنیا میں داخل ہو جائیے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لامتناہی بھی لامتناہی نہیں ہے۔

اسی جستجو میں ابلیس کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔ بچپن سے دل میں بنی شکل کے سینگ جھڑ گئے، منہ سے نکلتی آگ سرد ہو گئی اور بھیانک چہرہ پتہ لگا کہ محض میک اپ کا کمال ہے۔ اقبال کے ہی ایک شعر کی ایسی تفہیم سرزد ہوئی جو سکول میں کبھی کچھ کرنے کی جرات کی ہوتی تو تشریح والے سوال ہی میں نہیں، پورے پرچے میں صفر ملتا اور گوشمالی الگ ہوتی۔

اقبال کے کچھ شعر اس قدر گھس گئے ہیں کہ ان سے بیزاری محسوس ہوتی ہے، ان ہی میں سے ایک یہ مشہور زمانہ شعر ہے جو بچوں کی ہر تقریر میں کسی نہ کسی بہانے شامل کر دیا جاتا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

بڑے ہوئے تو سکھایا گیا کہ تجرباتی شہادت کا اصول یہ ہے کہ واقعہ ڈھونڈا جاتا ہے اور اس پر اصول منطبق ہوتا ہے۔ اسطورے کے ورق پلٹے تو معلوم ہوا کہ جس اصول کی کارفرمائی کے لیے استاد روز حشر کا انتظار کرنے کو کہتے تھے وہ تو کب کا واقعے میں ڈھل چکا۔ سوچیے مذہب کی تمثیل میں وہ کون سا واقعہ ہے جب کوئی خودی کی اس معراج کو پہنچ سکا کہ خدا کو فیصلہ نہیں، اس کی رضا دریافت کرنی پڑی۔ اور صرف رضا ہی نہیں، اس کے بعد اپنی مثل پر بنائے گئے انسان کو بار بار خبردار بھی کرنا پڑا کہ اس کے راستے پر نہ چلنا۔ وہ الگ بات ہے کہ عدن سے لے کر گلزار ہست و بود تک انتخاب کے ہر حق پر یہ انسان اسی راستے پر چل نکلا۔ انسانی فطرت میں گوندھا گیا خوف اور حق و باطل کی تمیز بھی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکی۔ لیکن آخری تجزیے میں سوال کیا یہی نہیں ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ کچھ جواب اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ لیکن اقبال کے انسان کی انتہا وہی نکلی جو ابلیس کی ابتدا تھی۔

کہنے کو تو انسان جس باغ بہشت سے نکالا گیا تھا، اسی کی جستجو میں سرگراں ہے۔ ایک ابدی زندگی کا تمنائی ہے۔ اگر یہی راستہ وہ درست پاتا تو اس دنیا میں وہ ایک ایک گھڑی ”صبح کرنا شام کا“ کے فلسفے کی روشنی میں بتاتا۔ تمام عمر موت کا منتظر رہتا کہ کب اس زمینی قید خانے سے پیچھا چھوٹے اور عیش کا وہ سامان میسر آئے جس کے وعدوں کی شیرینی میں لتھڑے ہوئے متن وہ روز پڑھتا ہے۔ اس دنیا سے رغبت کا کوئی سوال ہی نہ اٹھتا پر ہوا کیا؟

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

انسان کو اس راہ پر کون لے آیا کہ وہ اپنا اصل مقصد فراموش کر کے اس دنیا کو بہتر بنانے میں لگ گیا۔ تمنا کا دوسرا قدم جس دشت امکان میں لایا، وہاں انسان نے آگ جلائی، پہیہ بنایا، دوا پیسی، عمارتیں کھڑی کیں، بجلی ڈھونڈ نکالی، زمین چیر کر ایندھن نکالا، لباس بنا، مجسمے تراشے، کینوس پر رنگ بکھیرا، مشینیں گھڑیں، فضا اور خلا تسخیر کی، سواری کے سامان ایجاد کیے، امراض کو شکست دی، اوسط عمر تیس پینتیس سے بڑھا کر اسی پچاسی پر لے آیا اور اب اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح موت کو بھی شکست دے ڈالے۔ دیکھیے تو ذرا، یہ تو ہر اس سعی میں ہے کہ باغ بہشت کو کبھی نہ لوٹنا پڑے اور جو لوٹ جاتا ہے اس کے لیے خوش نہیں ہوتا، آنسو بہاتا ہے۔ یہ عشق حقیقی کی عقل و خرد کے ہاتھوں پسپائی کس کی مرہون منت ہے۔ میں پھر مکالمہ ابلیس و جبریل کھولتا ہوں۔ دیکھیے ابلیس کس مقام سے جبرائل سے خطاب کرتا ہے اور کیا کہتا ہے

ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو

میں جون کی گرمی میں صوفے پر آرام سے بیٹھا، ایک ایرکنڈیشنر سے چھن کر آتی سرد ہوا میں، ریفریجریٹر سے برآمد یخ صاف پانی پیتے ہوئے، بلب کی روشنی میں، ایک جدید لیپ ٹاپ پر اقبال کا کلام گوگل کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کہ ترقی کا یہ سفر کس کی دین ہے۔ یہ راستہ کس کا دکھایا ہوا راستہ ہے۔ یہ سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو نصیب ہے تو زندگی میں رنگ ہیں، یہ سب نہ ہوتا تو ہم وہیں ہوتے جہاں سے چلے تھے۔ اور وہی جنت ہے تو پنڈت ہری چند اختر کے لفظوں میں ”یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا“

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments