سرکاری ملازمین، تنخواہ اور بجٹ


ہر سال بجٹ کے موقع پر پاکستان کے اکثر سفید پوش اور کم آمدن والے گھرانوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ سے متعلق بحث شروع ہو جاتی ہے۔ قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ لوگ امیدیں باندھتے ہیں۔ جو بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔ ملازمین جو تھوڑا بہت تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے اس پر صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور اگلے سال کے بجٹ تک اپنی امنگوں کو لگام ڈالتے ہیں۔

اس سال پچھلے سالوں سے مختلف یہ ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے تنخواہوں و پینشن میں رتی برابر بھی اضافہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے حکومت نے یہ فیصلہ اپنے پاس موجود وسائل کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اس پر وفاقی سرکاری ملازمین کی آہ و بکا ایک قدرتی بات ہے جو کہ اس ناچیز سمیت سب سرکاری ملازمین کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اب اس پر ایک طوفان بدتمیزی شروع ہوگیا ہے۔

کوئی کہہ رہا ہے کہ جناب یہ سرکاری ملازمین کرتے ہی کیا ہیں، پھر کوئی کہتا ہے کہ ان کو تنخواہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ بھی مطالبے سامنے آئے ہیں کہ جناب اگر اتنا ہی مسئلہ ہے تو استعفی دیں اور گھر جائیں۔ کوئی اور کام کریں گے تو پتہ چلے گا۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ سرکاری ملازمین کرتے کیا ہیں تو جناب صحت سے لے کر تعلیم تک، زراعت سے لے کر بجلی و گیس کی ترسیل تک سب کے لیے آپ سرکاری محکموں کے پاس جاتے ہیں۔ نجی شعبہ ابھی تک ان شعبوں میں سہولیات دینے میں سرکاری محکموں سے سبقت نہیں لے سکا۔ جہاں پر بھی نجی شعبہ کام کر رہا ہے وہاں ان سہولیات دینے کی قیمتیں اتنی مہنگی ہیں کہ غریب آدمی تو بالکل مستفید نہیں ہو سکتا۔ مڈل کلاس والے جب نجی شعبہ کی دی گئی ان سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو چلاتے ہوئے ایک ہی ورد کرتے سنائی دیتے ہیں۔

وہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت ان نجی اداروں کو اپنی تحویل میں لے لے تاکہ قیمتیں کم ہو سکیں۔ باقی ہم قانون نافذ کرنے والے اور دیگر انتظامی اداروں کے ملازمین تو ویسے ہی عوام کو کھٹکتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو جیسے آج کل کورونا وائرس کا وبائی دور چل رہا ہے تو انہی اداروں کے ملازمین اگلی صفوں میں بر سر بیکار نظر آتے ہیں۔ جس وقت سب لوگوں کو بیماری سے بچنے کے لیے گھروں میں رہنے کی ہدایات دی جا رہی تھیں تو ڈاکٹرز و دیگر انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چھٹیاں بھی ختم کردی گئی تھیں۔ اپنے ہیرو ڈاکٹرز کے ہمراہ ہمارے جیسے کئی سرکاری اہلکار ہفتہ اتوار چھٹی کے روز بھی دفاتر جاتے رہے۔ تو سرکاری ملازمین یہ سب کرتے ہیں آپ کے لیے۔

اب آتے ہیں اس بات پر کہ جناب سرکاری ملازمین کو تنخواہ کی ضرورت کیا ہوتی ہے۔ بالکل ان کے کون سے کوئی خرچے ہوتے ہیں، وہ تو خلائی مخلوق ہے جن کے ذمے خاندان کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ نہ وہ روٹی کھاتے ہیں، نہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی رہنے کے لیے گھر چاہیے ہوتا ہے۔ نہ وہ بیمار ہوتے ہیں نہ ان کے خاندان میں کوئی بیمار ہوتا ہے، نہ کوئی شادی بیاہ کا خرچہ ہوتا ہے۔ ان کو کیا ضرورت تنخواہ کی۔ ہاں ایک سوچ اور بھی پائی جاتی ہے کہ سارے کے سارے سرکاری ملازمین رشوت لے کر اتنا کما لیتے ہیں کہ ان کو تنخواہ کی ضرورت نہیں رہتی۔

بھائی، ہر سرکاری ملازم نہ تو ایسی جگہ تعینات ہوتا ہے کہ وہ رشوت لے سکے، نہ ہر ایک میں اتنی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی ہر ایک کی نیت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر ایک کو ایک ہی نظر سے دیکھنا کوئی مناسب بات نہیں۔ جو ایسا کرتے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ان کی وجہ سے اس اکثریت کو مت کوسیں جو اپنی تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں۔

تیسری بات اصل میں ایک مطالبہ بھی ہے اور شاید خواہش بھی۔ وہ یہ کہ اگر آپ کو اس تنخواہ سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو استعفیٰ دیں گھر جائیں۔ حضرت آپ نے یہ مطالبہ تو کر دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ جب ایک تجربہ کار سرکاری اہل کار استعفیٰ دیتا ہے تو نہ صرف اس کا آمدن کا یہ ذریعہ ختم ہوتا ہے بلکہ اس ادارے کو بھی ایک تجربہ کار اہل کار سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے جس کو برسوں لگے کہ وہ اس ادارے کے کام سنبھال سکے۔ اس اہل کار کی عمر رائیگاں لگ گئی جب کہ ادارے کا ٹھیک ٹھاک سرمایہ لگ گیا اس کو سب کچھ سکھانے میں۔

وہ اہل کار تو شاید اسی تجربہ کی بنیاد پر کہیں بہتر روزگار ڈھونڈ لے گا، لیکن ادارے کو اس جیسا ایک اور بنانے میں پھر سرمایہ اور وقت کی قربانی دینی ہوگی۔ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی سابقہ سرکاری اہلکار اپنے تجربے اور قابلیت کی بناء پر کسی پرائیویٹ ادارے میں میں بھرتی ہو جائے تو پھر یہی مطالبہ کرنے والے چیختے سنائی دیتے ہیں کہ میرا حق مارا گیا۔

اس ساری بات کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی پر بھی بلاوجہ تنقید کر دینا کوئی مناسب رویہ نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کو بھی اندازہ ہے کہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وہ اسی تنخواہ میں گزارہ کرتے رہے گے۔ لیکن بھائی ان کو اپنے معاشی حالات پر رونے کا حق تو دیں۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ ”مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا“ تو ایسا مت کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments