غنی خان اور ملا جان کی جنت


زندگی اگر سخت گذرے تو پروا نہ کرنا۔ جب تم میرے پاس آؤ گے تو تمھیں راحت ملے گی سکون ملے گا جنت کی صورت۔ میں تمھیں جانتا ہوں، تمھارے دل کے ارمانوں کو بھی۔ حوریں بھی ہوں گی تم خوش رہو گے۔ میں تمھیں تمھاری ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔ تمھیں لوٹ کر میرے پاس آنا ہے۔

میری عبادت کرنا، حق کے لئے ہی کھڑے ہونا، تھک جانا پریشان ہونا تو مجھے پکار لینا، میں تمھارے دل سے قریب ہوں۔ میرے لوگوں کا خیال رکھنا، انہیں آسانیاں فراہم کرنا، خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو یہ پیغام دیا۔

سب نے نہیں لیکن مذہب کے کی تشریح کا ذمہ لینے والے چند ملا لوگوں نے اس پیغام کی تشریح کو اپنی ہانڈی روٹی کا ذریعہ بنا لیا۔ اپنے ذاتی مقاصد اپنی حکومت کے لئے جنگیں چھیڑیں۔ ان کو جہاد کا مقدس نام دیا۔ اس جنگ میں مرنے والوں کو شہید بتایا۔ پھر اس دردناک موت کو اپنی باتوں سے دلکش بنایا۔ مردے بیچے موت کے نام پر کاروبار کیا۔

چھوٹی سے چھوٹی ہر خوشی پر روک لگائی۔ کھیل تفریح سب سے منع کیا۔ انسانوں کو طرح طرح سے پابند کیا۔ دنیا ہم سے رہ گئی ہے۔ ہم دنیا سے رہ گئے ہیں۔ دھماکے ہوتے ہیں۔ لوگ مرتے ہیں۔ ہمیں سننے کو ملتی ہیں بس جنت کی کہانیاں۔ حوروں کے قصے۔ موت کی دلنشینی۔ جو گھروں سے جنگ پر بھی نہیں جاتے، وہ بھی اپنے سکول سے ٹکڑوں میں واپس آتے ہیں۔ انہیں شہید بتایا جاتا ہے کہ یہ زندہ ہیں۔ انہیں حوریں ملیں گی۔ حوروں کے قصوں میں اپنی حسرتیں اپنی ناکامیاں اپنی خواہشیں اور بس اپنی ہی ہوس جھلکتی ہیں۔

حوروں کے خواب بکتے ہیں۔ قصوں میں جنت آباد ہوتی۔ ہماری دنیا برباد ہوتی ہے۔ لوگوں کو غم ملتے ہیں۔ اس سودے میں ملا خود کش کو جنت کی امید دیتا ہے۔

غنی خان نے حور جنت اور ملا کی حسرتوں کو زبان دی تھی۔ وائی ملا جان جنت کے حورے بندے دی، غنی خان اس شعر میں کہتا ہے ’ملا جان کہتا ہے کہ جنت میں حوریں ڈھیروں ڈھیر ہیں۔ چٹی سفید، مست، فربہ اور مکمل بے پردہ‘۔
Nov 14, 2016 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments