کوئی اپنی جان کیوں لے لیتا ہے؟


وشال بھاردواج کی فلم ’سات خون معاف‘ کا ایک ڈائیلاگ تھا، ”دنیا کی ہر بیوی نے کبھی نہ کبھی تو یہ ضرور سوچا ہوگا کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے شوہر سے چھٹکارا کیسے پاؤں؟“ یہ تو خیر فلمی ڈائیلاگ تھا اس لئے اس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں لیکن یہ ضرور سنجیدگی سے لئے جانے لائق بات ہے کہ دنیا کا ہر پانچواں آدمی زندگی میں ایک نہ ایک بار آتم خودکشی کے متبادل پر غور ضرور کرتا ہے۔ ایک کامیاب نوجوان فلم اداکار کی خودکشی نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ بظاہر نارمل لگنے والے لوگ بھی یہ انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔

خودکشی کرنے والوں کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ چونکہ یہ لوگ جینا نہیں چاہتے اس لئے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ ماہرین کی رائے اس سے الٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں لیکن اس زندگی سے نجات چاہتے ہیں جو وہ گزار رہے ہوتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں اگر یہ آس پیدا ہو جائے کہ ان کی اذیت کا حل موت کے علاوہ بھی کہیں موجود ہے تو شاید وہ اپنی جان لینے کی طرف نہ جائیں۔

انسان جب اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی تکلیف دراصل اس کے زندہ رہنے سے بندھی ہوئی ہے اور جب تک اس جڑ یعنی زندگی کو اپنے وجود سے علیحدہ نہ کر دیا جائے تب تک تکلیف کا یہ سلسلہ نہیں تھم سکتا تو اس کے موت کی طرف بڑھ جانے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ خودکشی کا سفر ایک چھلانگ کی طرح جھٹ پٹ نہیں ہوتا بلکہ انسان ذہنی طور پر دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب اسے سنبھالا جا سکتا ہے۔ اگر اس کیفیت میں اس کو نہیں سنبھالا گیا تو اکثر یہ پیش قدمی اپنی زندگی کو خود سے نکال کر پھینک دینے کے عمل پر جاکر ٹھہرتی ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے دراصل ذہنی مریض ہوتے ہیں، جبکہ سچائی اس سے الگ ہے۔ اپنی جان لینے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جو بھری پوری زندگی کے خوابوں کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں لیکن کسی موڑ پر جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ زندگی کی امنگ جن بنیادوں پر کھڑی تھی وہ ڈھے گئی ہیں تو زندگی سے ہی ان کا دل کھٹا ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہر 40 سیکنڈ میں دنیا کا کوئی انسان خودکشی کر لیتا ہے؟ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال آٹھ لاکھ لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔

یہ تعداد ڈرا دینے والی ہے لیکن اس سے بھیانک بات اس سے آگے ہے۔ اقوام متحدہ کے ہی اعداد و شمار کے مطابق خودکشی کے ہر معاملے کے ساتھ اقدام خودکشی کے بیس واقعات ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر سال آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں اور ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جان لینے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن ناکام ہو جاتے ہیں۔ اسے ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر دو سیکنڈ میں دنیا میں کوئی نا کوئی انسان خود کو مار ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

خواتین کے مقابلے میں مردوں میں خودکشی کے واقعات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ البتہ 15 سے 19 سال کی عمر میں خودکشی کرنے والوں میں مرد اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے۔ 2016 میں 10 سے 29 سال کے درمیان کے لگ بھگ 2 لاکھ 22 ہزار لوگوں نے اپنی جان لی۔ ان میں سے لگ بھگ 94 ہزار خواتین اور ایک لاکھ 27 ہزار سے زیادہ مرد تھے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ذہنی دباؤ کو جھیلنے اور حالات کا سامنا کرنے کے معاملے میں عورتیں مردوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔

15 سے 29 سال کے درمیان کی عمر میں خودکشی کا رجحان سنگین حد تک بڑھا ہوا پایا جاتا ہے۔ عمر کے اس زمرے میں حادثاتی اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ خودکشی ہی ہوتی ہے۔ زندگی کے بارے میں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ اپنے کسی بھی روپ میں آسان تو بالکل نہیں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ بے حد قیمتی بھی ہے۔ مایوس ہونا انسان کی طبیعت میں شامل ہے لیکن انہیں مایوسیوں سے باہر آ کر زندگی کے چیلنجز کو اپنے آپ پر حاوی نہ ہونے دینا ہی اصل امتحان ہے۔ اگر آئندہ کبھی کسی کو آپ اس طرح کی باتیں کہتے سنیں کہ ”اس سے تو اچھا تھا میں مر ہی جاتا/جاتی“ ، ”میں تو پیدا ہی کیوں ہوا/ہوئی“ ، ”بس جلدی سے موت آئے اور مجھے اس سب سے نجات ملے“ وغیرہ وغیرہ تو ان باتوں کو سنجیدگی سے لیں اور اس انسان کے اندر امید کا چراغ روشن کرنے کی کوشش کریں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments