عوام دوست بجٹ 2020ء


وفاقی حکومت نے 12 جون کو اپنا دوسرا سالانہ ”عوام دوست“ بجٹ پیش کر دیا جس کا حجم 60,295 ارب روپے رکھا گیا ہے اور حسب معمول ایوان میں اپوزیشن جماعتوں نے بینرز اٹھا کر احتجاج ریکارڈ کروایا کہ یہ بجٹ عوام دوست ہونے کی بجائے عوام دشمن ہے۔ سوشل میڈیا سمیت دیگر ابلاغ کے ذرائع پر جن موضوعات کو سب سے زیادہ تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ تعلیم اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ ہے۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان تعلیمی میدان میں بڑی تبدیلیاں لانے کے دعوے کیا کرتا تھا مگر بجٹ میں تعلیم کے حوالے سے کوئی قابل قدر اقدامات نظر نہیں آ رہے اور مزید یہ کہ تعلیم کا بجٹ بھی گزشتہ سے کم رکھا گیا۔

یہ باتیں وہ ”دانشور“ کر رہے ہیں جنہوں نے آج تک خود نہ تو بجٹ پڑھنے کی کبھی زحمت گوارا کی اور جنہیں نہ ملکی تاریخ کا کوئی اندازہ ہے، ان کا مقصد صرف حکومت کو تنقیدکا نشانہ بنانا ہے لہٰذا وہ اس ”عظیم مقصد“ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ میں یہاں سب سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ یہ بجٹ وفاق کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اور صوبائی بجٹ ابھی باقی ہے اور دوسری بات سے اہم کہ تعلیم اور صحت کے بجٹ پہ لمبی لمبی تقاریر کرنے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت صوبائی معاملہ بن چکا ہے لہٰذا ان تعلیم و صحت کا تفصیلی بجٹ صوبائی حکومتیں پیش کریں گی۔

اگر مزید وضاحت کروں تو ہم ایک نظر گزشتہ صوبائی بجٹ پہ ڈالتے ہیں۔ 2018۔ 19 بجٹ میں پنجاب نے تعلیم کے لیے بجٹ 693 ارب، سندھ نے 208 ارب، بلوچستان نے 352 ارب، خیبر پختونخوا نے 648 ارب روپے مختص کیا تھا جبکہ اسی سال وفاق حکومت نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا 57 ارب بجٹ رکھا تھا جو حالیہ بجٹ 2020 ء میں بڑھا کر 64 ارب کر دیا گیا ہے۔ یو ں گزشتہ برس تعلیم کا بجٹ تقریباً گیارہ سو ارب بنتا ہے جو صوبوں اور وفاق نے ملا کر دیا تھا اور اسی برس دفاعی بجٹ گیارہ سو ارب رکھا گیا تھا اور اندازہ کر لیں کہ گزشتہ برس بھی ہمارا تعلیمی بجٹ، دفاعی بجٹ سے زیادہ تھا۔

اس سال بھی جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ وفاق نے ہایئر ایجوکیشن کے لیے 64 ارب کا بجٹ مختص کیا ہے جو گزشتہ سے زیادہ ہے اور 30 ارب تعلیم کے لیے وفاق نے مختص کیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم 2019۔ 20 کی صوبائی بجٹ کو دیکھیں تو پنجاب نے تعلیم کے لیے گزشتہ برس 382 ارب جو ٹوٹل بجٹ کا 16 فیصد تھا پیش کیا اور اسی طرح باقی صوبائی حکومتوں نے بھی تعلیم کے لیے خاصی رقم مختص کی تھی۔ لہٰذاجہاں تک تعلیم یا صحت کے بجٹ کا سوال ہے تو صوبائی حکومتیں اپنے بجٹ میں پیش کریں گی۔

اس بجٹ کی سب سے بنیادی اور اہم بات یہی ہے کہ یہ مکمل ٹیکس فری بجٹ ہے یعنی نیا کسی بھی طرح کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا اگرچہ انڈسٹری ہولڈرز اس بات کا خدشہ ظاہر کر ہے تھے کہ حکومت نئے ٹیکسز ضرورلگائے گی۔ جہاں تک ریلیف کا سوال ہے تو یقیناً حکومت نے عوام کو جو پہلے ریلیف دیا وہ برقرار ہے اور نئے کسی بھی طرح کے ٹیکس نہ لگا کر عوامی خدشات کا خاتمہ کیا گیاہے۔ مجموعی طور پر اس سال بجٹ 2020 ء میں وفاق نے صحت کے لیے 75، تعلیم کے لیے 83 اوراحساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ دفاعی بجٹ میں پہلے کی نسبت اصافہ دیکھا گیا ہے۔

ٹیکس ہدف 4963 ارب رکھا گیاجس پہ کئی خدشات موجود ہیں کہ اگر یہ بجٹ ٹیکس فری ہے تو ٹیکس ہدف کو کیسے پورا کیا جائے گا اور یہی وجہ ہے سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ ڈیڈ بجٹ ہے کیوں کہ جب ہدف ہی پورا نہیں ہو سکتا تو بجٹ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے۔ ٹیکس کا ہدف رواں برس 27 فیصد زیادہ رکھا گیا اگرچہ گزشتہ برس ٹیکس فری بجٹ نہیں تھا تب بھی یہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا۔ کرونا سے پہلے ہی حکومت کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ نہ ہی ترقی کی شرح کا ٹارگٹ پورا ہوگا اور نہ ہی ٹیکس ہدف مکمل ہو پائے گا لہٰذا حکومت نے سارا معاملہ کرونا پر تھوپ گیا۔

یہاں مجھے بھی شدید اختلاف ہے کہ حکومت نے ٹیکس نہ بڑھا کر ٹیکس ہدف کیسے پورا کرنا ہے اور ترقی کی شرح جو گزشتہ برس بھی پوری نہ ہو سکی، کیا دوبارہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس دفعہ بھی جو ترقی کی شرح 2.1 فیصد رکھی گئی ہے، کیا یہ حقیقت پسندانہ ہے یا محض خام خیالی۔ این ایف سی (NFC) ایوارڈ کے تحت دو ہزار 874 ارب روپے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں جن سے امید ہے کہ صوبائی بجٹ پہلے کی نسبت بہتر ہوگا اور یقیناً تعلیم و صحت کے معاملے میں حکومت سنجیدگی سے سوچے گی۔

جہاں تک سوال غریب عوام کو ریلیف دینے کا ہے تو حکومت نے دودھ، دہی، کریم، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دلیہ، دالیں، چاول، انڈے سمیت کئی ضروریات زندگی کو سستابھی کر دیا ہے۔ پھل، خشک میوہ جات، مچھلی، مٹھائی، مصالحہ جات، سبزیاں، چینی اور دیگر کئی اہم چیزوں کو بھی ٹیکس فری کر دیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ مہنگی نہیں ہوں گی۔ ایک لاکھ (پہلے پچاس ہزار تھا) سے زائد شاپنگ پرشناختی کارڈ دینا لازمی ہوگا جو یقیناً کسی غریب کے لیے تکلیف دہ بات نہیں ہونی چاہیے۔

کچھ مشروبات پر ٹیکس لگائے گئے یا پھر امپورٹڈ سگریٹوں کو مہنگا کیا گیا ہے جو یقیناً امپورٹد سگریٹ پینے والے کے لیے بری خبر ہوگی۔ ایک اہم معاملہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا ہے جس پر میرے خیال سے سرکاری ملازمین کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ لاک ڈاؤن میں بھی انہیں مکمل تنخواہیں ملتی رہیں اور اگر اس دفعہ حکومت نے تنخواہیں نہیں بڑھائیں تو شور شرانا نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً میرے ایک محترم انیسویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہیں اور تقریباً لاکھ روپے پنشن لے رہے ہیں، وہ بھی حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں کہ پنشن میں اضافہ نہیں ہوا۔

کیسی کمال بات ہے کہ گھر بیٹھ کر ایک لاکھ لینے والا پریشان ہے کہ پنشن میں اضافہ نہیں ہوا لہٰذا اس قوم کی آنکھیں کبھی نے سیر ہوں گی سو میں اس معاملے میں حکومتی اقدامات کی تعریف کرتا ہوں کہ شکر ہے تنخواہیں کم نہیں کر دیں ورنہ جو ملکی صورت حال ہے، ڈر تو یہ تھا کہ تنخواہیں کم کر دی جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ سرکاری ملازمین اس بات پر تو شکر ادا کر سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ سے جہاں کئی لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئی، ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا مگر ملازمین کو تنخواہیں بروقت اور مکمل ادا ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اگر تاریخ میں پہلی دفعہ انہیں گورنمنٹ کی مدد کرنے کا موقع ملا ہے تو صبر شکر ادا کرنا چاہیے۔ حالیہ بجٹ پر یقیناً خدشات ہوں گے اور ہونے بھی چاہیے مگر اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ سوشل میڈیا یا دیگر تشہیری ذرائع پر بجٹ کو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا ئے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments