وارث میرایک محب وطن دانشور تھے


وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے حال ہی میں جاری کردہ ایک بیان میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سابق چیئرمین اور ممتاز دانشور جناب وارث میر کو ملک و قوم کا غدار قرار دیا ، جو نہایت قابل مذمت بات ہے۔ فیاض الحسن چوہان سوشل میڈیا اور اخبارات میں سستی شہرت کے لئے اس نوعیت کے بیانات داغتے رہتے ہیں جس سے ان کا ذاتی امیج تو خراب سے خراب تر ہوتا جا تا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہمارے استاد مکرم پروفیسر وارث میر مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی مقناطیسیت تھی۔ بھاری بھرکم جسم ، چھوٹا قد، چہرے پر دبیز شیشوں کی عینک اور لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ ہر وقت کھیلتی تھی۔ وہ بڑے شفیق اور ملنسار انسان تھے۔ کتب بینی کا ذوق بچپن سے تھا۔ اسی کسمپرسی اور عسرت کے زمانے میں بھی وہ کتابو ں کے حصول کے لئے ہر طرح کی مشقت برداشت کر لیتے تھے۔ اسلامی تاریخ ان کا پسندیدہ مضمون تھا اور وہ بنیادی طور پر دائیں بازو کے نظریات کے حامی تھے۔
کلاس روم میں ان کا لیکچر نہایت دلچسپ ہوتاتھا جب وہ کسی سنجیدہ موضوع پر لیکچر دے رہے ہوتے تو کوئی شریر لڑکا چٹکلا یا شوشہ چھوڑ دیتا جس سے ساری کلاس زعفران زار ہو جاتی۔ وارث میر مرحوم کا چہر ہ غصے سے تمتما اٹھتا اور وہ اپنا لیکچر چھوڑ کر کسی اور موضوع پر تقریر شروع کر دیتے ۔ جوش خطابت میں ان کی آواز پورے شعبہ صحافت میں گونجتی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم سب موچی دروازے میں ہیں جہاں کبھی نوابزادہ نصر اللہ خان ، شورش کاشمیری، مولانا کوثر نیازی اور علامہ احسان الہی ظہیر جیسے زعماءخطابت کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔ وارث میر مرحوم کی کلاس کا وقت ختم ہو جاتا اور دوسرے استاد باہر انتظار کر رہے ہوتے لیکن وارث صاحب اپنے دل کا غبار خوب اچھی طرح نکال کر دم لیتے۔
میر صاحب تمام طلباءو طالبات سے شفقت اورت محبت کا برتاو رکھتے۔ خصوصا طالبات کے سامنے اپنی روایتی سادگی اور بھول پن میں بعض ایسے جملے کہہ جاتے کہ طالبات ہکا بکا رہ جاتیں۔ اور پھر ان جملوں کی بازگشت پوری یونیورسٹی میں گونجتی اور نوجوان ان جملوں کو دوہرا دوہرا کر محضوظ ہوتے۔
دائیں بازو سے اپنی وابستگی سے بائیں بازو کی طرف کا ارتقائی سفر تب شروع ہوا جب دائیں بازو کی رجعت پسند جماعت کی ذیلی تنظیم نے میر صاحب پر چھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا کر ان کا جینا حرام کر دیا۔ ان کے گھر پر اس تنظیم کے گماشتہ خشت بازی کرتے، نازیبا الفاظ اور دشنام طرازی کرتے، غیر اخلاقی نعرے بازی کرتے جو ایک شریف النفس اور وضع دار آدمی کے لئے ناقابل برداشت حرکتیں تھیں اور پھر یہاں تک ہوا کہ وارث میرصاحب کے بچوں پر قتل کے مقدمات بن گئے۔ ان تما م افسوس ناک واقعات سے وارث میر مرحوم اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس موقع پر کسی بھی دینی جماعت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اور دوسری طرف بائیں طرف کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاسی عمائدین نے وارث میرمرحوم کو گلے لگایا اور ان کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔
یہی وہ موقع تھا جہاں سے وارث میر مرحوم کا ترقی پسندی کا دور شروع ہوا۔ اور ان کے قلم نے شعلے اگلنے شروع کر دئے۔ اور بہت جلد وارث میر بائیں بازو کے دانشوروں کی صف اول میں شمار ہونے لگے۔ وارث میر مرحوم ایک روشن خیال انسان تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں حالات واقعات کا بڑی حقیقت پسندی سے جائزہ لیتے اور بلاخوف و خطر اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے۔
جہاں تک مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات اور مضمرات کا تعلق ہے وہ ایک نہایت حساس پیچیدہ اور اندوہناک سانحہ ہے۔ وارث میر مرحوم مشرقی پاکستان کے مسائل کا حل سیاسی انداز میں تلاش کرتے تھے ۔ اور وہ فوج کشی کے خلاف تھے۔ یہ ایک دیانت دارانہ رائے تھی۔ وہ ایک محب وطن انسان تھے۔ اور ملک کے دو لخت ہونے کے اسبا ب پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں ہی ممکن ہے۔ وارث میر مرحوم جیسے صلح جو ، وطن دوست، دانشور اور صاحب فراست انسان پر غداری کا الزام لگانا نہایت قبیح حرکت ہے۔ اور اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
جہاں تک حامد میر کا تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک ممتاز اور معروف شخصیت ہیں۔ تاہم ان کی کچھ تحریروں اور گفتگو پر اشتعال میں آکر لوگ نہ صرف حامد میر صاحب کے لئے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں بلکہ عموماً ان کے والد صاحب مرحوم و مغفور وارث میر صاحب کو بھی متنازع شخصیت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال پروفیسر وارث میر مرحوم کے ہزاروں شاگردوں کے لئے حد درجہ تکلیف دہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments