بلوچستان: اِک بسمل گاہ اور گوادر پورٹ کا افتتاح


\"amara-shah\"

سفرِ زیست میں پے در پے مصائب و آلام سے دوچار ہو کر کار گاہِ ہستی کو ایک تماشہ سمجھنے والے آفاقی شاعر، اسد اللہ خاں غالب، کا غم جب آتشیں مشروب بھی غلط نہ کر سکا اور اپنے خونِ جگر سے غم و الم کو شعری قالب میں ڈھال کر بھی مطمئن نہ ہوئے تو گویا ہوئے

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ دکھوں نوحہ گر کو میں

حوادث جب اپنی انفرادی زندگی کے گوشہ سے نکل کر ملکی اور ملی کینوس پر پھیلے جن کا نکتہِ کمال 1857 کی جنگِ آزادی ٹھہرا تو غالب کی دیدہ بینا نے، جو قطرے میں دجلہ دیکھ سکتی تھی، مسلمانوں کے ہمہ گیر زوال کو بھانپ لیا۔ شاگردِ خاص الطاف حسین حالی جب ماضی کے شاہانہ مزاروں اور درباروں کے قصوں پہ جب اردو ترجمعہ کی نئی چادر چڑھا کر لائے تو غالب نے سرِ ورق پہ مقدمہ لکھنے کی بجائے مسلمانوں کی کوتاہ اندیشی اور جہالت کا مقدمہ سامنے رکھا اور کہا کہ فطرت کی عطا کی ہوئی توانائیاں شاہوں کی حکایات کے تراجم میں صرف نہ کرو اور گم گشتہ ماضی کے افسانوں سے رہنمائی ڈھونڈنے کی بجائے خود کو حال سے جوڑو اور اپنی قوم کو مستقبل کے لئے تیار کرو۔ ورنہ مستقبل میں ہمارا ماضی شاہوں کی نمود و غرور کے قصوں کی بجائے نوحوں اور مرثیوں پر ہی مشتمل ہو گا۔ شاگردِ رشید نے استاد کی نصیحت گرہ میں باندھ لی اور حالی کا تخلص اپنایا اور مسلمانوں کو حال کے ساتھ چلنے کا درس دینے کی ٹھان لی۔

انہیں کے فیض سے سرسید احمد خان جیسے مجاہد پیدا ہوئے جنھوں نے کفر کے فتووں کے تمغے سینے پہ سجا کر مسلمانوں کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی۔ یوں چراغ سے چراغ جلتے رہے اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کہیں کچھ قندیلیں روشن ہوئیں۔ ان ہی قندیلوں سے روشنی لے کر مسلمانوں نے اپنے لئے گوشہِ عافیت اس امید پہ بنایا کہ یہاں مسلمان سائنسی اور لبرل سوچ کے ساتھ دنیا کے ہمقدم چلیں گے۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ صرف ستر برس کیے سفر میں بظاہر آگے بڑھتا ہوا یہ قافلہ جہالت، رجعت پزیری، چشم کوری اور بے بصیرتی کی زقندیں لے کر کئی سو سال پیچھے پہنچ جائے گا۔

انگریز کی جیب میں ماچس کی ڈبیا دیکھ کر حیراں ہو کر یہ کہنے والے غالب ”یہ کیسی قوم ہے جو آگ جیب میں لئے پھرتی ہے“ کے وہم و گماں میں بھی نہ ہو گا کہ اس کی قوم کے فرزند مستقبل میں ماچس نہیں بلکہ بارود اپنی چھاتی سے لگائے پھریں گے اور پھر اسی بارود سے اپنے بازاروں، مسجدوں، دانش گاہوں اور درگاہوں تک کو لہو لہو کر دیں گے۔ اسلام اور انسانیت کے آفاقی اصول ہائے محبت و امن و آشتی کے یوں پرخچے اڑائیں گے جیسے ہلاکو نے بغداد کے باسیوں اور کتب خانوں کے اڑائے تھے۔

وطنِ عزیز میں ہونے والے پے در پے دہشت گردی کے واقعات کو دیکھ کر قوم نے بے حسی کی چادر تان لی ہے۔ دو وقت کی روٹی میں جتے ہوئے غریبانِ وطن کہیں بازار میں تو کہیں مسجد میں، کہیں دانشگاہ میں تو کہیں کسی درگاہ پہ موت کی وادی کی طرف یوں کھنچے چلے جاتے ہیں جیسے کوہ قاف اور داغستان سے آنے والے موسمیاتی پرندے گرم فضاؤںں اور جھیلوں کے تعاقب میں آتے ہیں۔ فطرت کی گود میں کھیلنے والے نونہالوں سے لے کر ماؤں کے لاڈلے نوخیز جوانوں تک، بہنوں کی ڈھارس اور سہاگنوں کے سروں کے تاجوں تک، ماؤں کی گود میں کھیلنے والے شیرخواروں سے لے کر زندگی کے افق پہ ٹمٹماتے بزرگوں کے چراغوں تک سب ہی خون میں نہلائے گئے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات کے تسلسل نے روح کو ایک مستقل ماتم کدے میں تبدیل کر دیا ہے۔ خوشی اور مسرت نام کی چیز کو ہم سے روٹھے ہوئے عشرے بیت گئے۔

ہم دہشت گردوں کی سجائی ہوئی بسمل گاہ میں روزانہ کی بنیاد پر جانیں دے تو رہے ہیں لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ ہم کس جرم کی پاداش میں مارے جا رہے ہیں۔ اور اگر یہ سوال پوچھ لیں تو جرم دار اور غدار ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔

وطن کے محافظوں اور اقتدار کے مالکوں کی نظر میں ہماری بےوقت موت قربانی اور شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی نظر میں ہماری جانیں پرِ کاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں کیونکہ ان کی نظر ملک کی ”ترقی“ اور ”خوشحالی“ پہ ہےجسے خون سے سینچنا ہمارے اوپر لازم کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے نظریاتی ہم خیال اور ان کی سوچ و فکر کو معاشرے میں ترویج و اشاعت دینے والے عناصر کو ریاست ”سٹریٹجک ایسٹ“ کے نام سے موسوم کرتی ہے اور یوں بے موت مارے جانے پہ ہماری طویل خاموشی کو جرأت اور بہادری سے۔ دو عشرے افغانستان میں روس اور امریکہ کی جنگ میں ہمارے بچے ایندھن بنے تو نعرہ یہ تھا کہ یہ کمیونسٹ روس اور اسلام کی جنگ ہے جس میں ہمیں اپنی جانوں کا نزرانہ دینے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگلا عشرہ افغانستان میں ”خلافتِ اسلامی“ کے قیام اور انتظام کے نام ہوا۔ اور ایک بار پھر ہم ہی مقتل گاہ کی زینت بنے۔

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھےمقتل کو سرخرو کر کے

حالات نے کروٹ لی تو نیا نعرہ بلند ہوا کہ اس ”خلافت“ کے قیام میں استعمال ہونے والے ”مجاہدین“ غلطی سے دہشت گرد نکلے اور اب ان دہشت گردوں سے ہم نے جنگ لڑنی ہے اور ساتھ ہی یہ نوید بھی سنائی گئی کہ یہ جنگ کسی محاز تک محدود نہیں بلکہ ہر گلی، کوچہ، بازار، مسجد حتٰی کہ قبرستان بھی محازِ جنگ ہوں گے۔

ایک عشرے تک خاک و خوں کا یہ کھیل وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں کھیلا گیا جس پہ صاحبانِ اقتدار نے آنکھیں بند کی رکھیں کہ یہ آگ یہیں تک محدود رہے گی اور باقی ماندہ پاکستان اس کی زد سے محفوظ رہے گا، لیکن پھر دیکھنے والوں نے جی ایچ کیو راولپنڈی، مہران بیس کراچی، نشتر پارک کراچی، داتا دربار لاہور اور بلوچستان کے طول و عرض کو اس آگ میں جھلستے دیکھا۔ جس کا کلائمیکس اے پی ایس کے دردناک سانحے پہ ہوا۔ اس دفعہ درد ”اپنا“ تھا تو ریاست کے تمام ستون گہری نیند سے بیدار ہوئے اور یہ اعلان کیا کہ اب دہشت گردوں اور ان کے معاونین کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ قبائلی علاقہ جات جو پہلی دہشت گردوں کے جسموں سے باندھے ہوئے بارود سے اجڑے ہوئے دیار کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اب ان دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے برسائے گئے بارود کی بارش سے کھنڈر میں تبدیل ہو گئے۔ لاکھوں غیرت مند پختون اپنے ہی وطن میں مہاجر ٹھہرے اور خونِ جگر پی کر کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کرنے والے غیرت مند قبائلی راشن کے لئے قطاروں میں بھیک مانگتے نظر آئے۔

اخبارات کے بیشتر لکھاری اور ٹی وی چینلز پہ بیٹھے بیشتر اینکرز اپنے قلم اور زبان کسی مالی منفعت کے رہین کر کے کبھی سیاسی دھرنوں میں ملک کا مستقبل دیکھتے رہے تو کبھی عمران خان کی خانہ آبادی سے دل شاد کرتے رہے۔ کبھی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع موضوع ٹھہرا اور کبھی توسیع سے انکار ان کی دلچسپی کا محور و مرکز رہا۔ کبھی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ٹی وی سکرینوں کی رونق رہی تو کبھی بانیانِ پاکستان کی اولادوں کی ”غداری“ کا چشم کشا انکشاف لوگوں کی بصارتوں اور سماعتوں کی نظر کرتے رہے۔ حکومتی وزراء جو خود بھی اس بے محاز لڑے جانے والی لڑائی اور اس کے خاتمےکے لئےکیئے جانے والے آپریشن سے اتنے ہی بے خبر تھے جتنے کہ عوام، اور آپریشنز کی کامیابی کی نویدیں سناتے رہے۔ آپریشنز کی کامیابی ہمیں امن و آشتی تو نہ دے سکی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ جنگ کا تھیٹر قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ سے بلوچستان منتقل ہو گیا۔

ریاست اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتی لیکن ماضی کی طرح پالیسی تو نہ بدلی ہاں نعرہ ضرور بدل گیا۔ 2007 سے 2013 تک بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کو علیحدگی پسندوں کی تخریب کاری سے موسوم کیا گیا جنہیں ہندوستان اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتا رہا۔ پھر یہ نوید سنائی گئی کہ علیحدگی پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب بلوچستان کے چپہ چپہ پہ سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے۔ دہشتگردی کی حالیہ نئی لہر نے جب بلوچستان کے بازاروں، دانشگاہوں اور درگاہوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تو ایک نیا نعرہ سامنے آیا کہ یہ سی پیک پہ حملہ ہے۔ بلوچ اور پشتون پہلے علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں مرے پھر کئی جانیں ریاستی آپریشن کی نظر ہوئیں اور اب سی پیک ان کے لئے وبالِ جان بن گیا۔

سی پیک میں بلوچوں کے لئے اتنی ہی خوشحالی مضمر ہے جتنی وطنِ عزیز کی پالیسی سازی میں ہم عوام کا عمل دخل۔ لیکن سی پیک کی سیاہ سڑکوں کی تعمیر میں بلوچوں کا خون رنگینی بھرے گا۔ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں جان دینے والے سپاہیوں کا ماتم، سیاسی دھرنے کے سجانے اور پھر لپیٹنے میں منتج ہوا۔ اس جشن کا آخری راگ عدالتِ عظمیٰ میں پانامہ لیکس کی سماعت ٹھہرا۔ وزیرِ دفاع نے سپریم کورٹ میں اپنی کامیابی پر سیالکوٹ میں جشن منایا اور وزیرِاعظم نے اپنے مینڈیٹ کے صیح ہونے پر مبارکبادیں وصول کیں۔ کراچی میں ایک ”دہشت گرد گورنر“ کی جگہ ”محبِ وطن“ گورنر کا تقرر ہوا جن کی صحت کا وہی عالم ہے جو دہشت گردوں کے سامنے ہمارے دفاع کا۔

اب کی بار فطرت نے شاید ہمیں خوشیوں کا تسلسل ہی دے دیا ہے کہ قومی سلامتی جس کو دہشت گرد ہزارہا حملے کر کے بھی کوئی ”گزند“ نہ پہنچا سکے اور جو سرل المیدا کی خبر کے ہاتھوں مجرح ہوئی۔ محافظینِ وطن کے مطالبے پر وزیرِ اطلاعات برطرف ہوئے اور خبر کی لیکیج کی ان کوائری پہ ایک کمیشن بٹھا دیا گیا۔ دوسری طرف کوئٹہ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے سینکڑوں وکلا کی موت پر تعینات کمیشن کے سربراہ کا یہ بیان سامنے آ گیا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور حکومتِ بلوچستان انھیں گمراہ کر رہی ہے اور حقائق کمیشن کے سامنے نہیں پیش کیے جا رہے۔ اب کوئی سوچے کہ اس سے پہلے بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے کے لئے سینکڑوں بلوچوں اور پشتونوں کا سراغ لگانے کے لئے صوبائی یا وفاقی حکومت نے تعاون کیا؟ کوئی کمیشن یا عدالت بلوچستان کے مبینہ گم گشتہ افراد کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی؟ کہ اب ”چند“ وکلاء کے خون کے سراغ کے لئے وزیرِاعلٰی بلوچستان کمیشن سے معاونت کریں گے؟

موصوف طبعاً نواب آدمی ہیں اور آجکل وفاقی حکومت کی آنکھ سے سی پیک میں بلوچستان کی خوشحالی دیکھ رہے ہیں۔ آج گوادر پورٹ کے افتتاح کے موقع پر وزیرِاعظم، مولانا فضل الرحمٰن، آرمی چیف اور وزیرِاعلیٰ بلوچستان کے تمتماتے چہرے دیکھ کر تخیل ایک لمحے کو گزشتہ رات حب میں شاہ نورانی کی درگاہ کو بسمل گاہ بنتے ہوئے منظر پہ جا رکا۔ چہار سو پھیلے ہوئے انسانی اعضاء کے چیتھڑے پھیلے ہوئے، اپنے پیاروں سے لپٹ کر چیخ و پکار کرتے ہوئے زخمی بدن اور غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے چہرے، ایک لمحے کے لئےآنکھوں کے سامنے تیرنے لگے۔

شاہ نورانی کی دور افتادہ درگاہ پہ ڈھول کی دھیمی تھاپ پہ دھمال ڈالنے والے سوختہ بختوں کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ دھمال، دھمال نہیں بلکہ رقصِ بسمل ہوگا۔ یہ درگاہ، درگاہ نہیں بسمل گاہ ہو گی۔

شاید ماضی کے واقعات کو ذہن میں لاتے ہوئے ان کو اپنے یوں بے موت مارے جانے کا یقیں ہو لیکن یہ تو کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ رقصِ بسمل کے بعد ان کے کشتوں، ریزہ ریزہ بدنوں اور ان کی لواحقین کی سسکیوں اور بینوں کی موجودگی میں ریاست چند کلو میٹر کے فاصلے پر جشن کا اہتمام کرے گی اور ان کی بسمل گاہ کی خوں آلود دیواروں سے آنکھیں موند کر اپنے کاروبار کی ترویج کے لئے ڈھول کی تھاپ اور گھوڑوں کے رقص پہ گوادر پورٹ کا افتتاح کریگی۔ لیکن شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی بےوقت موت نے جشنِ افتتاحِ بندرگاہ کا مزا کرکرا کر دیا۔ کیونکہ بندرگاہ کے افتتاح پہ ہونے والے رقص کے پسِ منظر میں بسمل گاہ میں ہونے والی خونی دھمال کی جھلک نظر رہی تھی۔

باتیں جو تم نے آج یہ چھیڑیں ملال کی
پھر کیا رہی نشاط تمھارے ”وصال“ کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments