سزائے موت کا منتظر ناکردہ جرم


کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کال کوٹھڑی میں محصور ہوئے سزائے موت کے منتظر کسی قیدی کے کیا احساسات ہوتے ہوں گے؟ وہ کیا سوچتا ہو گا؟ اس کے شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے۔ آنے والا وقت کا تصور کیسے اس کو گہن کی طرح چاٹتا ہو گا۔ کیسے اس کی صحت روز بروز گرتی جاتی ہو گی۔

عام طور پر ہر ملزم اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتا ہے لیکن کوئی ایسا مجرم جس کو سزائے موت سنا دی گئی ہو اور وہ واقعی بے گناہ ہو، اس کے کیا احساسات ہوتے ہوں گے۔ جو جرم اس نے کیا ہی نا ہو اس ناکردہ جرم کی سزا کاٹنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہو گا۔

وہ ایک ایسا ہی شخص تھا بلکہ ایک عام آدمی تھا جو اپنی لگی بندھی سیدھی سادی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایسا عام آدمی اچانک قسمت کے پھیر میں آ جائے تو اس کے ہوش ایک لمحے میں ہی اڑ جاتے ہیں۔ اس کے بھی ہوش و حواس اڑ گئے تھے۔ شاید وہ شخص گھر کا سودا سلف لینے نکلا تھا یا اپنے کام کاج کے سلسلے میں اپنے راستے پر رواں دواں تھا۔ گھر کے کسی بیمار فرد کی دوا دارو کے لیے شہر کے کسی اچھے میڈیکل اسٹور کا متلاشی تھا یا پھر گھر بیٹھے بیٹھے بیزار ہو گیا تھا اور محض ہوا خوری کے لیے ہی گھر سے نکل آیا تھا۔

وجہ جو بھی رہی ہو مگر اس شخص کو راستے میں ایک ہجوم سے واسطہ پڑ گیا تھا اور وہ شخص صرف اس وجہ سے اس ہجوم کا حصہ بننے پر مجبور ہو گیا تھا کہ وہ ہجوم اس کے راستے میں تھا۔ ہجوم کسی بات پر احتجاج کر رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم متشدد ہو گیا۔ پولیس نے متشدد ہجوم پر دھاوا بول دیا اور بھگدڑ مچنے سے ایک بندہ کچلا گیا۔ پولیس نے اپنی گردن بچانی تھی اس لیے پولیس نے اس عام آدمی کو کچلے جانے والے کے قتل کے الزام میں اس وقت دھر لیا جب وہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی فکر میں تھا۔

پولیس جب کسی کو پھندہ فٹ کرنا چاہتی ہے تو کر ہی لیتی ہے۔ شکار چاہے جتنا مرضی پھڑپھڑا لے مگر وہ اس پھندے میں پھنس کر ہی رہتا ہے۔ وہ بھی پھندے میں پھنس گیا تھا۔ اس کے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں تھا جبکہ استغاثہ نے اس کے خلاف شواہد اور ثبوتوں پر مبنی مضبوط مقدمہ تیار کر دیا تھا۔ اس کی کوئی پیش نہیں گئی۔ کوئی دہائی نہیں سنی گئی۔ تمام اپیلیں مسترد ہو گئیں اور اس کو سزائے موت سنا دی گئی۔

اب وہ بے گناہ مجرم اس کال کوٹھڑی میں بیٹھا اپنے مقدر کو کوس رہا تھا کہ آخر وہ اپنے گھر سے باہر ہی کیوں نکلا۔ کیا برا تھا اگر وہ اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہتا۔ موت دن بدن کبھی دبے پاؤں تو کبھی چیختی چنگھاڑتی اس کی طرف بڑھی چلی آ رہی تھی اور وہ شدید بے بسی کے عالم میں اسے اپنی طرف آتے دیکھ رہا تھا۔ موت کو تو آنا ہی ہوتا ہے اور وہ آ ہی جاتی ہے۔ اسے بھی آ گئی۔ سنتری نے ایک دن کوٹھڑی کا دروازہ کھولا تو روح کا پنچھی قفس عنصری سے پرواز کر چکا تھا۔

ہم اس کہانی کو یہیں ختم کیے دیتے ہیں کیونکہ یہ بہت بوجھل اور تلخ ہو گئی ہے۔ کہانی آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کریں۔ مگر موت کو نہیں روکا جا سکتا۔ زندگی بعض اوقات آپ کے اختیار میں نہیں رہتی۔ وہ سزائے موت کا منتظر بے جرم مجرم گھر سے نا نکلتا تو اسے ہجوم سے واسطہ نا پڑتا اور نا ہی وہ ناکردہ جرم میں کال کوٹھڑی تک پہنچتا۔

آج کل کورونا وائرس کی وبا کا زور ہے۔ اس میں بھی گھر بیٹھنا ہی بہتر ہے۔ جس طرح کورونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے اور روزبروز ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں، کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کون کون اس سے متاثر ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ ہزاروں، لاکھوں یا پھر کروڑوں لوگ بغیر کسی علامت کے اس وائرس کو اپنے جسم کے اندر لیے گھوم پھر رہے ہوں۔ کیا معلوم آپ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلیں گے تو کوئی ہجوم آپ کی راہ میں موجود ہو۔ ہو سکتا ہے وہ ہجوم نظر بظاہر پرسکون اور پر امن ہو۔ مگر ہجوم کو متشدد ہوتے کون سی دیر لگتی ہے۔ اس عام آدمی کو تو پولیس کے دھاوے نے مروا دیا مگر آپ کو تو شاید علم بھی نا ہو سکے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا اور کیسے آپ تک پہنچ گیا۔

اب بھی وقت ہے۔ احتیاط کیجیے۔ بلا ضرورت گھر سے باہر مت نکلیے۔ سماجی دوری اختیار کیجیے۔ ملنے جلنے سے اول تو پرہیز کیجیے اور اگر ملنا مجبوری بن ہی جائے تو کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیے۔ گھر سے باہر ماسک کو اپنے جسم کا حصہ بنا لیجیے۔ بار بار ہاتھ دھوئیے اور ہاتھ دھوئے بغیر اپنے منہ، آنکھوں اور ناک کو مت چھوئیے۔

سزائے موت کا منتظر بے جرم مجرم بننے سے اپنے آپ کو ہر قیمت پر بچائیے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments