سشانت کی موت


موت ایک اسرار ہے ایک بھید ہے ایک چھپی ہوئی چیز ہے کوئی پتہ نہیں کہ موت کے پردے کے پیچھے کیا چھپا ہے ایک اندھیرا ہے جسے آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں موت ایک ایسی حقیقت ہے جیتے جی جس سے آنکھیں چار نہیں ہو سکتی موت کا راز پانے کے لئے مرنابہت ضروری ہے۔ کوئی آج مرا کوئی کل مرا ہر کسی نے ایک دن دنیا کے اس عارضی ٹھکانے سے کوچ کرنا ہے سانسیں جو ہم لکھوا کر لائے ہیں وہ محدود ہیں، لا محدود نہیں۔ کیا اسباب ہیں جو موت کی صورت پر جا کے منتج ہوتے ہیں بیماری ہے حادثے ہیں قحط ہے یہ سب بلائیں اپنے دامن میں موت کا تحفہ لئے پھرتی ہیں آج کل کروناکی وبا کے ہنگام مرگ انبوہ کا رقص جاری ہے روز یہاں وہاں سے موت کی خبریں آتی ہیں، کیا کیا صورتیں ہیں کہ خاک میں جا کے پنہاں ہو رہی ہیں اور دل ہے کہ ڈوب ڈوب جاتا ہے۔

کئی لوگوں کے پیارے ہیں جن کی زندگی کی کشتی اس وبا نے موت کے کنارے لگا دی۔ اب موت ایسا بھید ہے جو اس کو پالیتا ہے وہ واپس آکر نہیں بتا سکتا کہ وہاں اس پار اس کنارے اس کا استقبال کیسے ہوا؟ اس پار اس نے کیا دیکھا؟ مذاہب ہیں جو کچھ روشنی ڈالتے ہیں موت کے بعد کے سفر پر اسلام میں قبر کا دور ہے، قبر کے اس دور میں منکر نکیر آکر کچھ سوال جواب کرتے ہیں۔ اس میں برزخ کا زمانہ ہے۔ برزخ کے بعد قیامت آ پہنچے گی۔

صور پھونکا جائے گا سب ذی روح دوبارہ سے اٹھائے جائیں گے میدان عرفات میں اکٹھے ہوں گے، میزان عدل قائم کی جائے گی اعمال کا حساب ہوگا کھوٹے کھرے کو پرکھا جائے گا اچھے برے کو الگ کیا جائے گا اس میں فیصلہ ہوگا کہ کچھ لوگ جنت میں جائیں گے اور کچھ لوگ اپنے اعمال کی سزا میں دوزخ کی طرف عازم سفر ہوں گے جنت میں حور و غلماں کوثر و تسنیم خوش رنگ پھول اور طائران خوش نوا جنتیوں کا استقبال کریں گے شراب طہورکے چشمے رواں ہوں گے غرض ایک ابدی دور نشاط ہے جس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوگا اور بعض برگزیدہ لوگوں کو تو خالق کائنات کا دیدار بھی نصیب ہوگا۔

اب جو جو گنہگار ہیں جنہوں نے دنیا میں بد اعمالیاں کی جن کے توشہ آخرت میں برے کاموں کے سوا کچھ نہ تھا جن کا اعمال نامہ اعمال کی سیاہی سے کالاہو چکا تھا انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہاں ہزار طرح کے عذاب ان پر مسلط کیے جائیں گے انہیں آگ میں جلایا جائے گا طرح طرح سے اذیت میں مبتلا کیا جائے گا تو یہ ایک خاکہ ہے جو اسلام، حیات بعد از موت کا اپنی تعلیمات میں پیش کرتا ہے۔ اب یہ چیزیں ابھی اندھیرے میں ہے یہ حقیقت ہو بھی سکتی ہیں نہیں بھی ہم میں سے جو صاحب ایمان ہے وہ تو ان سب باتوں پہ پختہ یقین رکھتے ہیں اور جن کا ایمان کچاپکا ہے وہ اس کے بارے میں تشکیک کا شکار ہیں۔

ہاں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ دنیا کی زندگی ہے یہ دنیا کہ ایک خوبصورت دنیا ہے اس دنیا کو ہم اپنے اعمال سے جنت بنا سکتے۔ جیسا کہ ہمارے دین کی تعلیمات میں جنت کا نقشہ کھینچا گیاہے۔ اب ہو کیا رہا پے انسان نے اپنی بد اعمالیوں سے اس دنیا کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کر رکھا ہے اور کئی لوگوں پہ زندگی اتنی تنگ کر دی جاتی ہے کہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کئی لوگ روزانہ دنیا میں خودکشی کرتے ہیں دنیا کے مختلف مصیبتیں اور پریشانیاں اور تکلیفیں انہیں زندگی جیسی خوبصورت نعمت کے خاتمے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

یہ دکھ اور تکلیفیں دماغی عارضوں کا سبب بنتے ہیں اور خود کشی کا سب سے بڑا سبب بھی یہی دماغی عارضے ہیں۔ آج خبر آئی ہے کہ پی کے مووی میں کام کرنے والے ایک ہندوستانی اداکار سوشانت نے خودکشی کرلی خوبصورت نوجوان تھا زندگی میں کامیابیاں سمیٹ رہا تھا اور دولت اور شہرت سب کچھ حاصل تھاتو کیا وجہ ہے کہ ایک دن آدمی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ خود ہی کر لیتا ہے۔ روپیہ پیسہ دولت شہرت اور آسائشیں ان سب سے بڑھ کر کئی اور ایسی تکلیفیں اور عارضے روح کو گھائل کرتے ہیں، جنہیں ہم دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

کئی نفسیاتی بیماریاں ہیں جو انسان کو خودکشی کی منزل تک لے جاتی ہیں۔ روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود انسان ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتا ہے اور ڈپریشن خودکشی کا سب سے بڑا سبب ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نفسیاتی عارضوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ نہ ان کے علاج پر توجہ دیتے ہیں۔ بلکہ نفسیاتی بیماریوں کے علاج کو اپنے لیے معاشرتی داغ سمجھتے ہیں۔ اور یہ چھوٹی چھوٹی نفسیاتی الجھنیں آخر میں انسانی زندگی کو لے ڈوبتی ہیں انسان کی موت کا سبب بن جاتی ہیں سوشانت کی صورت میں ایک خوبصورت نوجوان زندگی سے محروم ہو گیا اب آگے شاید ہندہ دھرم میں آواگون کا چکر اس کا کیسے استقبال کرتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ بہرحال دنیا ایک خوبصورت اور عمدہ اداکار سے محروم ہوگئی موت کا ایک تاریک پردہ ہے جس کے پاروہ چلا گیا ہے جہاں سے وہ کبھی نظر نہیں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments