ابن رشد سے ارطغرل



ارطغرل کے اردو ورژن سے اہل اقتدار کا یہ مقصد تھا کہ نئی نسل یہ جان پائے کہ ہم کون تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ اس دلیل کے سنتے ہی ذہن اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب سرکاری سرپرستی میں با ئیالوجی۔ کیمسٹری فزکس اور جرنل سائنس کے پہلے چیپٹر قرآن میں موجود اس مخصوص سائنس پر ہوتے تھے اور دوسرے چیپٹر میں مسلم سائنسدانوں کا سائنس پر احسان پڑھایا جاتا تھا۔ بے شک مسلم سائنسدانوں کی خدمات اپنے وقت کے حساب سے گرانقدر تھیں لیکن یہ سینہ گزٹ میں چلتا تھا کہ کینسر کا علاج بو علی سینا کی کتاب سے ملا ہے گوروں کو۔ مطلب یہ کہ سائنس ایجاد مسلمان کی تھی اور غیر مسلم سائنسدانوں کی حیثیت مترجم اور چوروں کی سی تھی جو وقت کے مطابق ہماری کتب سے کوئی چیز ڈھونڈ کر اپنے نام سے پیٹنٹ کروا دیتے ہیں۔

اب اگر ہم اتنے ترقی یافتہ تھے تو اچانک جاہل کیوں ہو گئے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا تھا کہ بغداد میں ہمارا علمی خزانہ تاتاریوں نے جلا دیا۔ اب اس سوال پر کہ اگر وہ جل گیا تھا تو یورپ تک کیسے پہنچ گیا خاموشی ہوتی تھی۔

شاید ضیا دور میں مسلم سائنسدانوں کا پڑھایا جانا نیک نیتی سے تھا لیکن شاید یہ پڑھانے کی ضرورت تھی کہ ان سائنس دانوں کو اس دور میں کس کی مخالفت کا سامنا تھا اور کن رویوں کی وجہ سے سائنس اسلامی دنیا میں شجر ممنوعہ بنی۔

اسکی ایک چھوٹی سے مثال ابن رشد کی داستان سے واضح ہوتی ہے۔

خلیفہ منصور ابن رشد کا معتقد تھا لیکن عیسائیوں کے خلاف جنگ کے لیے اسے مسلمان مجاہدین کی مدد درکار تھی جنہوں نے مطالبہ کیا کہ ابن رشد کو کافر اور یہودی قرار دے کر یہودیوں کی بستی میں پھینک دیا جائے اور اس کی کتب نذر آتش کر دی جائیں۔ خلیفہ نے مجبوراً یہ حکم جاری کر دیا اور ایک عوامی ہجوم کے سامنے ابن رشد کو ذلیل کر کے مسلم علاقے سے نکال دیا گیا۔ خلیفہ نے مشہور فلسفی ابوبکر بن زیر کو بلایا اور اس سے درخواست کی کہ مذہبی جنونیت کے مجبور کرنے پر یہ نا پسندیدہ فیصلہ تو کر لیا لیکن اگر وہ ابن رشد کی کتب نکال کر خلیفہ کے کتب خانے منتقل کر دے اور جعلی کتب جلا دے تو یہ اس کا فلسفے پر احسان ہو گا۔ ابو بکر ابن زہر نے ایسا ہی کیا۔

یہودی محلے میں کئی طالب علم اس کے دروازے پر بیٹھ گئے لیکن ابن رشد دل شکستہ ہونے کی وجہ سے ان سے معذرت کرتا رہا لیکن ایک تو پڑھانے کی عادت اور دوسرا یہ دلیل کہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسے یہودیوں کو پڑھانے پر قائل کر گیا۔ جب یہود تک یہ علم پہنچا تو ان میں علم کا مزید ذوق پیدا ہوا اور انہوں نے مزید مسلمان علما سے اکتساب حاصل کرنے کے لیے مسلم دنیا کا سفر شروع کیا۔ کہا جاتا ہے یہ یورپ کے تاریک دور کا نقطہ اختتام ثابت ہوا۔

دوسری طرف ابن رشد کو قرطبہ کی یاد ستائی تو وہ چھپ کر جمعہ پڑھنے آیا ایک روایت کے مطابق اسے پہچان کر مسجد کے ستون سے باندھ کر اس کے منہ پر تھوکا گیا آخر خلیفہ منصور کی مداخلت پر اس کی جان بخشی ہوئی اور اسے عوام کے سامنے اپنے ناکردہ گناہ اور عقائد کی معافی مانگنی پڑی۔ اس کے بعد ابن رشد نے منصور کی معذرت قبول کی اس کی مجبوری اور پچھتاوے کو سلام کیا اور مراکش روانہ ہو گیا جہاں اس کی وفات ہوئی۔

تین ماہ بعد اس کی لاش مراکش سے نکال کر قرطبہ دفنانے کے لئے لے جائی گئی تو وزن برابر کرنے کے لیے اس کی لاش کے دوسری طرف اس کی کتب لاد دی گئیں۔ ابن عربی ان دنوں مراکش میں تھے جب یہ منظر دیکھا تو بولے بے شک ابن رشد اسی قابل تھا کہ اس کا وزن کتب سے برابر کیا جاتا۔

تین صدیاں تیرہویں سے سولہویں صدی تک ابن رشد کو یورپ میں پڑھایا جاتا رہا پھر یورپ میں بھی بلند پایہ عالم پیدا ہوئے اور انہیں بھی ابن رشد نے ساتھ پڑھایا جانے لگا۔ انیسویں صدی میں ایک بار پھر ابن رشد میں دلچسپی پیدا ہوئی اور تقریباً تمام بڑی یورپی زبانوں میں ابن رشد کے ترجمے کیے گئے۔

دوسری طرف اسلامی دنیا میں آج بھی وہ لوگ پھل پھول رہے ہیں جنہوں نے ابن رشد کی مخالفت کی۔ کاش مطالعہ پاکستان کا ایک باب اس پر بھی ہو تو شاید اگلی دو سے تین دہائیوں تک ہم دوبارہ سائنس کے ٹریک پر واپس آ جائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments