دجلہ کنارے کا پیاسا کتا


ہم نے ہمیشہ جانا کہ لکھنا کتھارسس کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جب بھی کسی کو پریشان حال دیکھا تو یہ مشورہ دیا کہ اپنے دل کا غبار کاغذ کو سونپ دو۔ دل جب بھی دھڑکتا ہے، خون بہتا ہے۔ یہ پر سوز خون لفظ بن کر ہمارے قلم کی سیاہی کے ذریعے کاغذ تک پہنچتا ہے۔ یوں ہم کسی حد تک کتھارسس کر پاتے ہیں۔ مگر عجیب معاملہ ہے، لگتا ہے دکھ بڑھ جانے سے شریانوں میں کلاٹ بن گئے ہیں، جو روانی کو متاثر کرنے لگے ہیں۔ اب لکھنے لگتے ہیں، دل تھم جاتا ہے، آنکھیں بھر آتی ہیں، حلق سوکھ جاتا ہے۔ ضمیر ملامت کرتا ہے، اپنے آپ سے ہی دست و گریبان ہو جاتے ہیں کہ گھر میں آگ لگی ہے، اور تمہیں کتھارسس کی پڑی ہے۔

گھر میں آگ کا لگ جانا بھی ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ آگ کسی کے گھر لگے تو گلی روشن ہو جاتی ہے۔ ہم باہر جا کر منظر تکتے ہیں، کوئی مدد کو نہ آئے تو مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی مر جائے تو تاسف کرتے ہیں۔ کبھی جنازے میں بھی شرکت کر لیتے ہیں، مگر پھر بحر دوام کی مانند اپنی زندگی گزارنے لگتے ہیں، جیسے کبھی ہوا ہی کچھ نہیں۔ یہی آگ اپنے گھر لگ جائے تو قیامت آجاتی ہے۔ دکھ کا کوئی مداوا، کوئی تسلی نہیں ہوتی۔ آگ جسم پر پڑتی ہے۔ کوئی مر جائے تو روح کا ایک حصہ مر جاتا ہے۔ دکھ گھیر لیتا ہے۔ سوگ دائمی ہو جاتا ہے۔ پھر زندگی کبھی بھی پہلے کی طرح چل نہیں پاتی۔

پہلے بچے سوشل میڈیا سے نا آشنا تھے۔ موبائل اور کمپیوٹر تو کیا، ٹی وی بھی نا پید ہوا کرتا تھا۔ بچے گلی میں کھیلا کرتے تھے۔ محلے کے سارے گھر، اپنے گھر۔ سارے شہر، اپنے شہر۔ سارا ملک، اپنا ملک ہوا کرتا تھا۔ ملک میں صرف تین طبقے تھے : ایلیٹ فیکٹری مالکان اور زمیندار، غریب مزدور اور کسان، اور ملازمت پیشہ مڈل کلاسیے۔

مگر پھر دور وہ آیا، غم دوراں نے آ گھیرا۔ طبقاتی تقسیم میں شدت آ گئی۔ تعلیم کا مقصد نوکری بن گیا۔ اور ملک میں ایک چوتھے طبقے کی نوید سنا دی گئی، جس کا نام اسٹیبلشمینٹ رکھا گیا۔ اب فوج میں جانے کی وجہ خواہش شہادت نہیں، محفوظ مستقبل بن گیا ہے۔ ایک کثیر تعداد ہے، جو فوج میں جانے کے لیے سر توڑ محنت کر رہی ہے۔ ان سے وجہ پوچھی جائے تو کہتے ہیں کہ فوجی بن کر فیوچر سیکیور ہو جاتا ہے۔ اب ملک و دین پر جان وارنے کے لیے فوج میں جانے والا ولولہ مبہم ہوتا جا رہا ہے۔

ہم سنتے ہیں، فلاں مقام پر ملکی سرحد کی حفاظت کے لیے ایک اور بیٹے نے جام شہادت نوش کر لیا، ایک آدھ ٹویٹ بھی کر دیتے ہیں، یا ایک آدھ دن کے لیے شہید کی تصویر سے موبائل کو آراستہ کر لیتے ہیں، مگر حقیقت میں جس بیٹے نے جان دی ہوتی ہے، وہ ہمارا اپنا بیٹا نہیں ہوتا، وہ کسی غریب کا بیٹا ہوتا ہے، سو ہماری زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ شہید کے بیٹے، اس کی بیوی، اس کی ماں سے پوچھیے، اس گھر میں اور بھی بیٹے شہادت کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

مگر ہماری ایلیٹ اور اسٹیبلشمینٹ کے بچے بہر حال بکثرت زندگی انجوائے کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں میں گانوں کے ساتھ دھوئیں کا امتزاج رمضان میں بھی مسجدوں کے تقدس کا خیال نہیں کرتا اور ان کے دم سے ملک کے کئی کلب آباد رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کرنل کا رشتہ دار ہے، کوئی وزیر اعظم کا۔ کسی کا باپ ا سپیکر ہے تو کسی کی والدہ ماجدہ ایم این اے۔ کوئی کمشنر کا بیٹا ہے، تو کوئی کمشنر کا برادر نسبتی۔ یہ طبقہ کسی اور ہی دنیا کا باسی ہے۔

ملک میں کہیں جہاز گرے، بلڈنگ گرے، کورونا ہو، ٹڈی دل ہو، گمشدہ افراد ہوں، عصمتوں کی تجارت ہو، انہیں کوئی پروا نہیں۔ یہ اپنی دھن میں مگن ہیں، اور یہ انتہائی المیے کی بات ہے۔ المیہ ان کی بے پروائی نہیں، المیہ ان کے باعث اداروں کے کھاتے پڑنے والی بدنامی ہے۔ ایک مچھلی پورا تالاب گندا کرتی ہے یا نہیں، پورے تالاب پر سوالات ضرور اٹھا دیتی ہے۔ اداروں کو اپنی ساکھ بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اشد ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ملک کے ان بیٹوں کا پتہ لگایا جائے، جن کا کسی کو کوئی پتہ نہیں، کہاں گئے۔ زمین کھا گئی، آسمان نگل گیا، یا طبقاتی تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئے، کوئی نہیں جانتا۔ مگر ان کے گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہائے وہ بہن، جو اپنے آنسو پونچھتی نہیں تھکتی، کبھی ایک تھانے تو کبھی دوسرے در، کبھی در بدر، کبھی خاکسر۔ روتی پھرتی ہے، اپنوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے۔ کہتی ہے جب باہر نکلتی ہوں، لوگوں کی نظریں چبھتی ہیں، کیا کریں ہم؟

ہائے۔ ۔ ۔ کیا کریں ہم؟ قلم توڑ کر پھینک نہ دیں؟ مر نہ جائیں کسی بہن کی یہ دہائی سن کر؟ آخر کیا کریں ہم؟ یہ ہے وہ دکھ جو دل کو چیرتا ہوا باہر آ رہا ہے۔ کئی راتوں سے نیند ناپید ہے۔ کیا کریں؟ کس منہ سے اللہ سے اپنے لیے کوئی دعا مانگیں؟ اگر یہی حادثہ ہمارے اپنے گھر ہوا ہو؟ ہماری اپنی ماں، بہن، بیٹی، یا بیوی کو یوں درندہ صفت ہجوم سے گزر کر دربدر پھرنا پڑے؟ زمین پھٹ نہ جائے ہمارے لیے کہ ہم زندہ درگور ہو جائیں؟ کیا قصور ہے ان کا؟ یہ کسمپرسی و بے چارگی کی حالتیں، یہ ویرانیاں، یہ تباہیاں، یتیمیاں، غریبیاں، محرومیاں، یہ سب مقدر کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ان کا تعلق کسی اعلیٰ طبقے سے نہیں؟ اس لیے کہ یہ عزتوں کے سودے نہیں کرتیں؟ یا اس لیے کہ یہ انسان نہیں سمجھی جاتیں؟

کس بات پر سینہ کوبی کریں؟ کس امر پر ماتم کناں ہوں ہم؟ ان کے عزیز کی گمشدگی پر کہ جس کی تلاش سارے ملک کے اداروں کے لیے ناممکن ہے؟ یا اس گھٹیاپن پر کہ انہیں گھر سے نکل کر درندوں کے ہجوم سے گزرنا پڑتا ہے؟ ان کے گھر کی آگ کا لوگ تماشا دیکھتے ہیں، انجوائے کرتے ہیں۔ ڈوب مریں وہ لوگ جو خواتین کو یوں تکتے ہیں۔ آگ لگے ان کے گھر جو دوسروں کا تماشا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ قوم کورونا سے مرے یا نہ مرے، بے حسی سے ضرور مر رہی ہے۔

محترم وزیر اعظم، ہاتھ جوڑ کر، گھٹنے ٹیک کر آپ سے منت سماجت ہے، ان لوگوں کا خیال کیجیے۔ آپ ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں، عمرؓ کی مثالیں دیتے ہیں، انہیں انسان نہیں سمجھتے نہ سہی، کم سے کم دجلہ کے کنارے پیاسے مرنے والے کتے ہی سمجھ لیجیے کہ جن کی بابت حساب سے عمرؓ خوف کھاتے تھے۔ خدارا، جس ارطغرل کو دیکھ کر مسلمانوں کے تابناک ماضی کا درس لینے کا قوم کو مشورہ دے رہے ہیں، خود بھی ایک ساعت اسے دیکھ لیجیے کہ حکمران اور سپہ سالار کس قدر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مظلوموں کا درد محسوس کرتے ہیں، دادرسی کرتے ہیں۔

انہیں یقین ہوتا ہے کہ موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ محافظوں کی فوج بنا کر عوام کے لیے خود تک رسائی نا ممکن نہیں بنا دیتے۔ خدارا اس آگ کو پھیلنے سے روکیے۔ ورنہ کم سے کم ریاست مدینہ کا نعرہ چھوڑ دیجیے۔ ترک کر دیجیے اپنی پارٹی کا نام۔ بند کر دیجیے اسلام اور انصاف پر درس دینا۔ اور کھل کر بتا دیجیے کہ اس ملک کے ہر طبقے کے ساتھ جارج فلائیڈ والا سلوک ہی ہو گا۔ جو بھی مظلومیت کا دعویٰ کرے گا، اس کی گردن پر سرکار گھٹنا رکھ کر اسے جان سے مار دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments