جب میں کورنٹائین سے باہر نکلوں گی۔ ۔ ۔


جب میں کورنٹائین سے باہر نکلوں گی اس دن خود کو فطرت کی آغوش کے سپرد کر دوں گی۔ گھر کے پاس بہتی ندی جسے میں نے کورنٹائین میں سرگوشیاں کر تا ہوا ساتھی پایا ہے، اس سے جی بھر کر باتیں کروں گی۔ اس میں بچپن میں نہ کھیلے جا سکنے والے کھیل یعنی کاغذ کی کشتی چھوڑوں گی۔ کھڑکی سے باہر کے سارے منظر اپنے وجود میں بھر لوں گی۔ آسمان جسے میں نے مہربان سائبان کی طرح اپنے سر پر پایا اس کو کسی چادر کی طرح اوڑھ کر سیر کو نکل جاؤں گی۔

رات کو چاند کسی قدر بھلا لگتا ہے۔ کئی راتیں جن میں چاند کی کرنیں میری چھت پر اٹکھیلیاں کرتی ہیں، ان کو دیکھوں گی۔ اب یہ رات جو سنہری ہے کسی گندم کے لہلہاتے ہوئے کھیت کی طرح، ناز و انداز دکھا تی ہوئی۔ اس چاندنی کے سمندر میں ڈوب جاؤں گی۔ چاند کیسے بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا ہے؟ خود کو اس کھیل کا حصہ بنا کر دیکھوں گی۔ میں نے دیکھا ہے کہ رات کی ہیبت، چاند کیسے کم کر دیتا ہے۔ اسی طرح زندگی کی تاریک راہوں میں محبتیں چاند بن کر نور کا سماں باندھ دیتی ہیں۔

میں جب کورنٹائین سے نکلوں گی تو ان سارے رشتوں کی کہکشاں کو پھر سے محسوس کروں گی۔ میں کورنٹائین سے باہر نکلوں گی تو بچوں کے ساتھ اپنا بچپن سانجھا کروں گی۔ وہ سارے کھیل جو وہ نہیں جانتے ان کو سکھاؤں گی۔ بچپن سے سائیکل چلانے کا شوق جو اپنے دل کے کسی نہاں خانے میں اب بھی لیے پھرتی ہوں، اس شوق کو پورا کروں گی۔ اپنے بیٹے علی رحمان کے ساتھ پہاڑی راستوں پر سائیکل چلاؤں گی۔ ممکن ہے مجھے سائیکل چلاتے دیکھ کر کچھ لوگ عجیب نظروں سے میری طرف دیکھیں۔ لیکن جب میں کورنٹائین سے نکلوں تو صرف اپنی نظروں سے خود کو دیکھوں گی۔ کون کیسے دیکھتا ہے اس سے لاپروا ہو کر جی بھر کر جیوں گی۔

میں وہ سارے نغمے گنگناؤں گی جن میں زندگی کا مدھر راگ ہو۔ ہر ساز چھیڑوں گی جس سے میری روح سیراب ہو جائے۔ جب میں کورنٹائن سے نکلوں گی تو سارے موبائل انٹرنیٹ بند کر کے کہیں دور قیسو کے ساتھ گھومنے جاؤں گی۔ وہ اور میں جو شادی کے کئی سال گزرنے کے بعد خانگی ذمہ داریوں میں یوں مگن ہوئے کہ موٹر سائیکل پر بتائے وہ سارے پل ماضی کی دھول میں گم ہوتے گئے۔ میں پھر سے اس کی گردن میں بانہیں ڈالے کہیں سے زندگی کا وہ گم شدہ صفحہ پھر سے بازیاب کروں گی جس پر ہم نے محبت کا گیت لکھا تھا۔

میں جب کورنٹائن سے باہر نکلوں گی تو بہار، خزاں، سرما گرما اور برسات سارے موسموں کو اپنے آنچل میں لپیٹ لوں گی۔ سارے پھول وادی سے چن کر ان کی مہک کو اپنی روح میں جذب کر لوں گی۔ نیلے آسمان کی چادر تلے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے ہوا کی تازگی کو جسم کے سارے مساموں میں جذب کر لوں گی۔ اور پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے مستقبل کے سارے اندیشے بھلا کر حال کی مستی میں گم ہو کر فطرت کے ساتھ محو رقص رہوں گی۔ اس وقت تک جب تک کہ خوشی میرے باطن میں دھمال نہ ڈال دے۔

میں جب کورنٹائن سے باہر آؤں گی دھان کے کھیتوں میں پھیلی خوشبو پر دنیا کے ہر مصنوعی ذائقے کو قربان کر دوں گی۔ کسی دیہات میں شام کے ملگجے اندھیرے سے پہلے کام نمٹاتی مٹیار کا ہاتھ بٹاؤں گی۔ وہی پل ہو گا جب اس کے تنور پر پھیلی گندم کی روٹی کی خوشبو اس کا اور میرا ساتھ مزید گہرا کر دے گی۔ اس کا آگ جیسا سنہرا روپ کندن بن کر چمکے گا تو کسی مصنوعی غازے کے بغیر زندگی کی مسرتیں مجھے حسن کے نئے معنی سے آشنا کر دیں گی۔

میں دور تک پھیلی پگڈنڈیوں پر خود کو بھٹک جانے دوں گی۔ باغ میں پھیلی مٹی اور بور کی خوشبو مجھے کسی اور دنیا کا راستہ دکھائے گی جہاں میں اپنے اصل سے ملاقات کر سکوں گی۔ جب میں کورنٹائین سے باہر نکلوں گی تو کسی معصوم بچے کی کلکاری پر تمام عمر کے شکوے گلے قربان کردوں گی۔ اور خود کو معاف کردوں گی ہر اس غلطی کے لیے جو میں نے کی یا نہیں کی۔ میں اسی معصومیت میں خود کو مقید کر لوں گی جو ہر انسان کا ازلی حق ہے۔ کسی دریا کے کنارے یا کسی ٹیلے پر بیٹھ کر ایسا جوگ پالوں گی جہاں انسان اور خدا میں من و تو کا فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔

ہاں! میں وقت کی قید سے آزاد کرتے ہوئے خود کو وقت کے ان دیکھے ریشم کے دھاگوں سے چھڑا لوں گی اور زمان و مکاں کی الجھنوں سے دور محبتوں کا جہان تلاش کروں گی جہاں میں اپنی پوری سچائی کے ساتھ زندہ رہ سکوں۔ ہاں البتہ میں سفر پر روانہ ہو نے سے پہلے اپنے لہو کی ایک بوند سے کسی کی زندگی کا ٹمٹماٹا ہوا چراغ روشن کرنا نہیں بھولوں گی۔ ۔ ۔ میں ایسا ہی کروں گی جب میں کورنٹائین سے باہر نکلوں گی۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments