پاکستان میں مینڈیٹ چرانے کے سات طریقے


پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں کم از کم سات ایسے طریقے ایجاد کیے گئے ہیں جن کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ کو چرایا جاتارہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سات طریقے یا ہتھیار پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی دس بارہ سال میں ہی تیار کرلیے گئے تھے اور پھر ان ہی کو بار بار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلا طریقہ تو یہ رہا کہ حکومت یا اس کے رہ نما کو بغیر کسی عدم اعتماد کی تحریک کے ہٹادیا جائے۔ یہ طریقہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد پہلے ہی ہفتے استعمال کیا گیا جب صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت کو بغیر کسی تحریک عدم اعتماد کے برخاست کر دیا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت میں ایک مسلمہ طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کسی منتخب حکومت کو ہٹانا چاہیں تو اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے۔ چاہے وہ صوبائی اسمبلی ہو یا قومی اسمبلی درست طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آئین کے مطابق عمل کیا جائے۔ حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں لاتی ہے اور اگر حکم ران جماعت یا رہ نما کے پاس اکثریت نہ ہوتو وہ عدم اعتماد کا شکار ہوکر مستعفی ہو جاتے ہیں۔

صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خاں صاحب کی حکومت کی برطرفی کوئی آخری نہیں بلکہ پہلا عمل تھا جس نے اس طرح کی روایت قائم کردی جسے بار بار دہرایا جاتا رہا۔ صوبائی اور قومی دونوں سطحوں پر مشرقی بنگال، پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی متواتر ہٹائے جاتے رہے اور ان کی برطرفی مرکزی حکومت کے ذریعے کرائی جاتی رہی۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسے دو نہیں بلکہ درجنوں واقعات ہیں جن میں اس طریقے سے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو ختم کیا گیا۔ ڈاکٹر خان صاحب سے لے کر ایوب کھوڑو اور فضل الحق تک اور پھر خود بھٹو اور شریف خاندان کے لوگ بار بار برطرف کیے گئے اور اس برطرفی کے لیے کبھی بھی تحریک عدم اعتماد کے قانونی اور آئین طریقے کو اسمبلی کے اندر استعمال نہیں کیا گیا بلکہ غیر نمائندہ فوجی اور عدالتی اہلکاروں کے ذریعے زبردستی منتخب سویلین حکم رانوں کو برطرف کیا جاتا رہا اور ان کے مینڈیٹ کو چرایا گیا۔

مینڈیٹ چرانے کا دوسرا طریقہ یہ نکالا گیا کہ سیاسی رہ نماؤں کی عوامی حمایت ختم کرنے کے لیے ان پر غداری کے الزامات لگائے جائیں۔ ان غداری کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی رہ نما بڑا اور قومی سطح کا سیاست دان ہو۔ اگر آپ صرف صوبائی یا علاقائی سطح کے رہ نما بھی ہیں اور اسمبلی میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل نہیں بھی کرسکتے۔ لیکن اگرآپ جمہوری اور انسانی حقوق کی سیاست کرتے ہیں اور مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو غدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ بالادست بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں تو بھی آپ غدار کہلائے جا سکتے ہیں۔ اگر بالادست بیانیہ نفرتوں اور مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر امتیازی سلوک کا بیانہ ہے اور اس کے مقابلے میں آپ امن اور رواداری کی بات کرتے ہیں تو بھی آپ غدار قرار دیے جا سکتے ہیں۔

اس طرح غالباً سب سے پہلے رہ نما جو غدار قرار دیے گئے وہ تحریک آزادی کے عظیم رہ نما خان عبدالغفار خان تھے پھر مولوی فضل الحق، فیض احمد فیض، حسین شہید سہرودی، فاطمہ جناح سے لے کر بھٹو اور شریف خاندان تک سب غدار ٹھہرائے گئے۔ ان سارے رہ نماؤں پر غداری کے الزامات بار بار لگائے گئے اور اس کے لیے آپ بڑے رہ نما ہوں یا درمیانے درجے کے یا بالکل کم پیمانے کے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کی پارٹی دوچار نشستیں بھی نہیں جیت سکتی پھر بھی اگر آپ سوال پوچھتے ہیں اور بالادست بیانیے کو للکارنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ غدار قرار پاتے ہیں بے شک آپ کی عوامی حمایت کم ہی کیوں نہ ہو۔

عوامی مینڈیٹ چھیننے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر صرف غداری کا الزام لگانے سے کام نہیں چل رہا تو ایک قدم آگے بڑھ کر کسی سازش کا مقدمہ ٹھونک دیا جائے جس سے غداری کے الزامات کو تقویت ملے۔ چاہے وہ راول پنڈی سازش کا مقدمہ ہو یا اگرتلہ سازش کا یا پھر حیدرآباد سازش کا مقدمہ۔ یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ اگر آپ فوجی یا سویلین حکم رانوں کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں، قومی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں یا جمہوری روایات کی پاسداری چاہتے ہیں تو یہ سب باتیں اصل حکم رانوں کو قابل قبول نہیں ہیں جو آپ کے خلاف غداری کے مقدمات بنا سکتے ہیں۔

اس طرح آپ پر ریاست کے خلاف کام کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور آپ کو سازشی بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے سازشی مقدمات کے کھوکھلے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ راولپنڈی سازش کیس میں سزا بھگتنے کے بعد فیض احمد فیض کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا اور آج انہیں قیام پاکستان کے بعد ملک کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر تلہ اور حیدرآباد سازش مقدمے خود جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق نے ختم کیے۔

نواز شریف کے خلاف طیارہ اغوا کرنے کا کیس اپنی موت آپ مرگیا جب خود جنرل مشرف نے انہیں ملک سے جانے دیا اور پھر عوام نے نواز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم بنایا۔

عوام کومینڈیٹ سے محروم کرنے کا چوتھا طریقہ یہ ہے کہ مقبول رہ نما کو جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے۔ لیاقت علی خان غالباً قومی سطح کے پہلے رہ نما تھے جنہیں قتل کیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ لیاقت علی خان نے کیا غلط اور کیا صحیح فیصلے کیے وہ ایوان کے رہ نما تھے اور انہیں اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔

گولہ کہ ان کے خلاف یا ان کے قتل کے پیچھے اصل سازش کبھی بھی بے نقاب نہ ہوسکی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے قتل کے سب سے بڑے فائدے ملک غلام محمد، اسکندرمرزا اور جنرل ایوب نے اٹھائے اور یہ تینوں ایک کے بعد ایک سربراہ مملکت بنے یا خود بن بیٹھے۔ ظاہر ہے کہ لیاقت علی خان کی موجودگی میں غالباً ان میں سے کوئی بھی سربراہ مملکت بن نہ پاتا۔

چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہو یا پھر بے نظیرکے قتل کے لیے دہشت گردوں کے حملے کا ڈراما ان سب کا مقصد عوام کو ان کے محبوب حکمرانوں سے محروم کرنا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ جسمانی طور پر ہٹائے کے لیے صرف قتل ہی نہیں کیے جاتے نواز شریف جیسے کسی رہ نما کو دس سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جاتا ہے اور پھر جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل بھی تاکہ وہ عوام کے سامنے سے جسمانی طور پر ہٹ جائیں اور اس طرح اپنی مقبولیت کھوبیٹھے مگر ایسا نہیں ہوتا۔

مثلاً آصف علی زرداری کو دس دسال سے زیادہ قیدوں میں رکھا گیا مگر پھر بھی جب عوام کو موقع ملا تو انہیں ایوان صدارت میں پہنچا دیا۔ اس طرح عوامی رہ نماؤں کو جسمانی طور پر ہٹانے والے کبھی کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے، چاہے عوامی نمائندوں کے خلاف مقدمات کتنے بھی کھوکھلے کیوں نہ ہوں انہیں سزامل جاتی ہے مگر آج تک بھٹو کو ایک جعلی مقدمے میں پھانسی چڑھانے والوں سے باز پرس نہ ہوسکی اور نہ اس کا مستقبل قریب میں امکان ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی طور پر ہٹانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رہنماؤں کو ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رکھا جائے اور مسلسل حملوں کی زد میں رکھا جائے تاکہ وہ ڈر کر عوام میں نہ آسکیں۔

عوامی مینڈیٹ چھیننے کا پانچواں طریقہ یہ ہے کہ قوانین کو منسوخ کیا جائے اور خود اپنی مرضی سے آئین میں ترامیم کرا لی جائیں۔ ملک غلام محمد نے قانون کی تشریح خود کی اور وفاقی عدالت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ میجر جنرل اسکندر مرزا نے پہلا آئین منسوخ کیا جو تقریباً ایک عشرے کے بعد نافذ کیا جا سکا تھا۔ جنرل ایوب خان نے نئے آئین کے لیے ججوں کا ایک کمیشن بنایا پھر خود اپنا آئین نافذ کیا جسے 1962 میں لاگو کیا گیا۔ اس آئین میں جنرل ایوب خان تمام اختیارات خود کو سونپ لیے اور عوام کو طویل عرصے تک ان کے حقیقی مینڈیٹ سے محروم رکھا۔ پھر جنرل یحییٰ خان نے 1962 کا آئین منسوخ کیا اور خود اپنا لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف نے بھی آئین کا تیاپانچہ کیا۔

ہر بار آئین کی اس درگت بننے کے بعد اسے اصلی حالت میں لانے میں کئی عشرے لگے جب کہ وہ 1973 کا آئین اب بھی پوری طرح بحال نہ ہوسکا۔ مگر خیال رہے کہ ایسا صرف فوجی آمروں نے نہیں کیا خود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آئین میں جو ترامیم کرائی ان کا ملک کو جمہوریت اور اقلیتوں کے حقوق پر خود عدلیہ پر بھی بڑا منفی اثر پڑا تھا۔

نواز شریف نے 1990 کے عشرے میں آئین میں ایسی تبدیلیاں کیں اور مزید کرنے کی کوشش کی کہ آئین قرون وسطیٰ کی کوئی دستاویز معلوم ہونے لگا۔ اور آئین کی درگت بنانے میں خود عدلیہ بھی شریک جرم رہی ہے۔

عوامی مینڈیٹ چرانے کا چھٹا طریقہ یہ نکالاگیا کہ میڈیا کو عوامی رہ نماؤں کے خلاف استعمال کیا جائے اور عوام کویہ احساس دلایا جائے کہ ان کے مقبول عوامی رہ نما دراصل چور اچکے ہیں اور نالائق اور نا اہل ہیں اس مقصد کے لیے ایسے نا اہل سویلین کو آگے لایا جاتا ہے جن سے ثابت کیا جاسکے کہ سویلین نمائندے واقعی جاہل اور نا اہل ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف اوقات میں ایسے سویلین کو دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں جتوایا جاتا ہے جن کا کام ہی ملک میں سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ایوب خان کے دور کے نواب کالاباغ سے لے کر جنرل ضیاءالحق کے شیخ رشید تک اور جنرل مشرف کے چوہدری شجاعت، فیصل صالح حیات اور زبیدہ جلال سے لے کر موجودہ دور کے فیصل واڈا، عامر لیاقت، مراد سعید، شہریار آفریدی اور فیاض چوہان اور فردوس عاشق اعوان تک نااہلوں کی ایک فوج ہوتی ہے جو خود جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہے۔

پھر میڈیا کو استعمال کرکے اصل عوامی رہ نماؤں کو گندا ثابت کیا جاتا ہے اور خود سب سے گندے سیاست دانوں کو میڈیا سب سے زیادہ وقت دینے لگتا ہے اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام کا مینڈیٹ چرایا جائے۔ ستر سال قبل پچاس کے عشرے میں اخبارات کے ذریعے خواجہ ناظم الدین کے خلاف مہم چلوائی گئی۔ انہیں ”قائد قلت“ اور ”مرغیاں پالنے والا“ وزیر اعظم قرار دیا گیا۔ پھر بھٹو کو ہٹایا گیا تو ”ظلم کی داستان“ نامی پروگرام ٹی وی پر چلاکر بھٹو کی کردار کشی کی گئی۔

اس سے قبل جنرل ایوب خان کے دور میں وہ تمام سیاستدان جو جنرل ایوب خان کے خلاف کھڑے رہے انہیں دشنام کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ خود فاطمہ جناح کو اخبارات کے ذریعے غدار وطن اور بھارت کی جاسوس قرار دیا گیا۔

آخر میں مینڈیٹ چرانے کا ساتواں طریقہ یہ تھا کہ خود انتخابات کو ہی قبضے میں لے لیا جائے۔ غالباً سب سے پہلے یہ کام مرزا ابراہیم کے خلاف کیا گیا پھر فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی کرائی گئی پھر خود غلام اسحاق خان نے نام نہاد نگران حکومتیں بناکر دھاندلیاں کرائیں۔ مثلاً بے نظیر بھٹو کو برطرف کرکے غلام مصطفی جتوئی کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا گوکہ جتوئی بے نظیر بھٹو کا ذاتی دشمن بن چکا تھا۔ اس طرح سندھ میں جام صادق علی کو نگراں وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس نے بے نظیر کے خلاف تمام اخلاقی حدود پار کرلی تھیں کیوں کہ بے نظیر کو عوامی حمایت حاصل تھی پھر اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا۔

اس طرح ہم آخر میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ سات طریقے یا ہتھیار رہے ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت کا قلع قمع کیا جاتا رہا۔ یہ فہرست حتمی نہیں ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں مزید اضافے کر سکتے ہیں۔ اس لیے 2018 کے انتخابات چرائے جانے کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے اور نہ ہی ہم پر نااہلوں کو مسلط کرنے کی داستان میں کچھ نیا ہے۔ ہاں البتہ چہرے ضرور کچھ نئے ہیں اور کچھ پرانے رہے ہیں لیکن ان کے پیچھے ادارے وہی رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments