نیلام گھر کا طارق عزیز ہم سے جدا ہو گیا



سنتی سماعتوں دیکھتی آنکھوں کو طارق عزیز کا سلام، شروع اس رب الجلال کے نام سے جس نے دونوں جہاں کو تخلیق کیا گلوں میں رنگ بھرے اور وجہ کائنات پر لاکھوں درود وسلام۔ ۔ ۔ عجیب سی کشش عجیب سی اپنائیت یہ الفاظ میں نے 1990 میں سنے تھے ہر جمعرات کو نیلام گھر پی ٹی وی پر آتا تھا چونکہ گاؤں میں ٹی وی کسی کسی کے گھر میں موجود ہوتا تھا تو زیادہ تر بچے بڑے کسی ایک کے گھر میں جا کر ٹی وی پر یہ شو دیکھا کرتے تھے۔ مدبر آواز اور احساس ایسا جیسے کوئی بہت اپنا سامنے آ گیا ہو۔

۔ ۔ طارق عزیز اس دنیا سے رخصت ہو گے آہ کیسے کیسے لوگ رخصت ہوئے۔ ۔ ۔ وصال نے بہت دکھ دیے ہیں۔ ۔ ۔ میرا تعلق چونکہ گاؤں سے ہے اور بچپن میں جس کو ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے اس کے بارے میں کیا خوب خیالات ذہن میں آ جاتے تھے ہمیشہ ایسے لوگوں کو ملنے کو جی چاہتا تھا لیکن ایک سوچ ہمیشہ دل ودماغ میں گھومتی تھی کہ یہ لوگ تو ٹی وی میں ہیں ان سے ملنا تو مشکل ہوگا۔ ۔ ۔ وقت گزرتا گیا لاہور آ گئے شعبہ صحافت میں قدم رکھا تو کئی نامور شخصیات سے ملاقاتوں کا موقع ملا بہت سے پی ٹی وی کے کردار عینک والا جن سے لے کر الف لیلی، گیسٹ ہاؤس، ڈرامہ سیریل آئینہ کی کاسٹ سے ملاقات رہی۔

۔ ۔ جب کبھی ان شخصیات سے ملاقات ہوتی تو ذہن میں کہیں نہ کہیں نیلام گھر کا عکس ضرور گھومتا تھا کیونکہ شعر و شاعری انعامات ادب سب کچھ یہیں سے سیکھنے کو ملا تھا۔ ۔ ۔ الحمرا ہال میں ایک ادبی محفل سجی اور جب وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو بڑے بڑے نام امجد اسلام امجد، مستنصر حسین تاڑر، عطا الحق قاسمی جیسے کئی نامور شخصیات سامنے تھیں مگر حیرت اس وقت ہوئی جب سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی خاتون نے دھیمے لہجے میں بولا کہ اب جس شخصیت کو سٹیج کی ذمہ داری دی جارہی وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ کے لیے آج کی شام اس لیے یادگار ہوگی کہ آپ کی ملاقات طارق عزیز صاحب سے ہونے جا رہی ہے۔ یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی ہال تالیوں سے گونج اٹھا میں خود بھی حیران ہو گئی اور میرے ذہن میں 1990 کا طارق عزیز گھومنے لگا کاٹن کا سوٹ کوٹ یا واسکٹ، کیا رعب دار شخصیت۔

۔ ۔ کالے رنگ کا سوٹ پہنے چند ہی لمحات میں طارق عزیز سامنے تھے وہی انداز وہی گفتگو وہی ادب اتنے برسوں بعد بھی اس شخص کے تیور نہ بدلے تھے۔ ادب سے خوش اخلاقی سے گفتگو کرتا وہ شخص شعروشاعری کرتا ادب کی بات کرتا پھر کالج یونیورسٹیز کے قصے سناتا بولے جا رہا تھا اور ہال قہقوں سے گونج رہا تھا۔ ۔ ۔ مجھے یاد آ گیا طارق عزیز کا وہ انٹرویو جب میں نے پہلی بار ان کو آبدیدہ دیکھا۔ ۔ ۔ جب وہ اپنی محنت کی کہانی اور اپنے والدین کی جدائی کا قصہ بیان کر رہے تھے ان کی آواز اور آنکھیں سارا قصہ بیان کر رہی تھی اینکر نے پوچھا کیا یاد ہے بولے یہ پوچھیں کیا یاد نہیں ہے۔۔۔ چائے کے ہوٹل پر کام کرنا، گاڑیاں صاف کرنا اور بڑا انسان بنے کے دوران کی محنت اور مشکلات آج بھی یاد ہیں۔ ابا سے پوچھا کرتا تھا۔ ہم غریب ہیں تو جو باتیں والد محترم نے بیان کیں وہ آج بھی زبانی یاد ہیں۔۔۔ جوچیز محبت سے ملتی ہیں وہ نفرت سے گم ہو جاتی ہیں۔ دوسروں کی مدد ایسے کرنا جیسا تم چاہتے ہو کہ کوئی تمھاری مدد کرے۔۔۔ جب بہت بڑے انسان بن جاؤ تو قبرستان ضرور جانا تاکہ تمھہیں یاد رہے کہ زندگی کے بعد موت کا سفر بھی کاٹنا ہے۔۔۔ یہ باتیں بتاتے ہوئے طارق عزیز صاحب کی آواز اور آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔ اور اندازہ ہوا کہ کتنا بڑا آدمی کیا سوچتا ہے اور کس طرح کی زندگی سے گزرا ہے۔

آج طارق عزیز صاحب کے انتقال کی خبر سن کر مجھے اپنا بچپن یتیم لگنے لگا ہے۔ ہر گھر میں افسوس ہے ہر شخص نیلام گھر کے طارق کے لیے افسردہ ہیں۔۔۔ آج ٹی وی پر ان کے پروگرام نیلام گھر کی ویڈیوز چلائی گئیں تو ایسے لگا جیسے پھر طارق عزیز سامنے آگئے ہوں۔۔۔ ہائے کیسے کیسے لوگ رخصت ہوئے اس دنیا سے اب ہمیشہ کے لیے ادب، مزاح اور قربت کے باب بند ہو گئے اللہ طارق عزیز کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کی زندگی سے ہمیں سب سیکھنے کی توفیق دے جو اس عظیم ہستی کو سب سے منفرد اور جدا بناتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments