مجسمے گرانے کی تحریک: ’تاریخ میں مظلوم قوموں کی آواز بھی شامل کرنی چاہیے‘


امریکہ میں نسلی تعصب کے خلاف جاری مظاہرے دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں اور اس میں غلامی کی علامتوں کو عوامی مقامات سے ہٹانے کی تحریک نے بھی شمولیت اختیار کر لی ہے۔

اس کا ایک مظاہرہ تو برطانیہ میں برسٹل کے مقام پر دیکھنے میں آیا جب سترہویں صدی کے غلاموں کے ایک تاجر ایڈورڈ برسٹل کے مجسمے کو مظاہرین نے اتار کر دریا برد کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ امریکہ میں کولمبس کا مجسمہ بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہوا۔ ایسے میں مظاہرین غلامی کی تمام علامتوں کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں سیسل رہوڈز کا مجسمہ اور امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران غلامی کے حق میں لڑنے والے کنفیڈرل جنرل کے مجسمے بھی شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تاریخ دان علی عثمان قاسمی نے اس تحریک کے بارے میں بتایا کہ ‘‘جو لوگ غلاموں کے تاجر تھے، جنہوں نے غلامی کو بچانے کے لیے جنگیں لڑیں، ان کی یادداشت کو عزت دینا بند کیا جائے۔ ان کے مجسمے ہٹائے جائیں۔ اور ان کو ہٹا کر کسی عجائب گھر میں ایک ریفرنس کے طور پر ڈال دیا جائے۔’’

معروف برطانوی تاریخ دان ولیم ڈیلے رمپل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جہاں اس بات سے اتفاق کیا کہ ان مجسموں کو عجائب گھروں میں رکھ دینا چاہیے، وہیں ان کے نزدیک مظاہرین کی جانب سے ایڈورڈ کالسٹون کے مجسمے کی توڑ پھوڑ ایک بدقسمت واقعہ تھا۔

انہوں نے کہا ‘‘میں بت پاشی کے خلاف ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان مجسموں کو مسمار کرنا چاہئے۔ اور جیسے ایڈورڈ کالسٹان کے مجسمے کو اتارا گیا، میرے خیال سے یہ بدقسمتی تھی۔’’

ولیم ڈیلے رمپل کے خیال میں اس میں تاریخ کو تباہ کرنے کا بھی پہلو ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘میں نو آبادیاتی دور کی علامات اور اس زمانے کے مجسمے تباہ کرنے کے خلاف ہوں۔ ہمیں انہیں ایک جگہ جمع کر کے شعور پیدا کرنے کا کام کرنا چاہئے۔ برطانیہ میں نو آبادیاتی دور کے آثار میں آرٹ کے بہترین نمونے اور مجسمے شامل ہیں۔ کیا ہم انہیں ویسے ہی تباہ کر دیں جیسے ریفارمیشن کے دوران 16ویں صدی کا آرٹ تباہ کر دیا گیا۔’’

علی عثمان قاسمی نے ان کے اس خیال سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلا مطالبہ ان مجسموں کی توڑ پھوڑ نہیں تھا بلکہ جب یہ تحریک جمہوری طور پر اپنے مطالبات منوانے میں ناکام رہی تو ایک خاص صورت حال بنی۔ ‘‘ایک عوامی تحریک چلی جس میں لوگوں نے ایک انتہائی قدم اٹھایا اور جا کر ان مجسموں کو گرا دیا۔’’

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو تاریخ مٹانے کے عمل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ بلکہ اس واقعے سے ایک دیرپا تاریخ بنی ہے۔

‘‘یہاں پر ایک ایسے شخص کا مجسمہ تھا جو غلاموں کی تجارت میں ملوث تھا اور ایک دن لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے یہاں سے اس کا مجسمہ ہٹا دیا اور اسے دریابرد کر دیا۔ ’’

ولیم ڈیلے رمپل نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی توڑ پھوڑ سے مستقبل میں انتہاپسند بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

انہوں نے بھارت میں ہندوتوا کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘جب آپ من پسند انتخاب کر کے ماضی کو تباہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، آپ انتہا پسندوں کے لیے دروازے کھول دیتے ہیں۔ جو مثال کے طور پر ہندوستان میں مغل علامات تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلامی کی علامات ہیں۔ اور یہ ہندوؤں پر مظالم کی علامات ہیں۔’’

انہوں نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے بامیان میں بدھا کے مجسموں کو توڑنے کی مثال بھی دی، مگر انہوں نے واضح کیا کہ وہ طالبان اور بلیک لائیوز میٹرز کی تحریک کو ایک سا نہیں کہہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘اخلاقی طور پر ان میں کچھ بھی یکساں نہیں ہے۔’’

علی عثمان قاسمی کا خیال تھا کہ ایسا موازنہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں 19 ویں صدی کے دوران فرقہ ورانہ طرز پر تاریخ لکھنے کے دوران ایسے خیالات پھیلائے گئے کہ ہندو قوم ہزار سال پہلے سومنات کا مندر توڑنے جیسے واقعات کی وجہ سے اب تک شدید ذہنی صدمے میں ہے۔

انہوں نے کہا ‘‘ایک ایسی تاریخ کے ساتھ یہ دعوی کرنا کہ ہندو قوم اس ایک واقعے کے صدمے کے ساتھ ایک ہزار سال کے ساتھ زندہ تھی۔ یہ بالکل غلط ہے اور ایک خاص طرح کی تاریخ دانی کا نتیجہ ہے۔’’

ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال آگے چل کر ‘‘ہندوتوا کی تحریک کا حصہ بنتا ہے اور جو سو ڈیڑھ سو سال ایودھیا کو لے کر یا باقی معاملات کو لے کر کچھ یادگاروں کو نشانہ بناتی ہے۔ اور دعوی کرتی ہے کہ یہ جو جگہ ہے یہ رام مندر کی تھی اور یہاں پر رام جی کا جنم ہوا تھا۔’’

انہوں نے واضح کیا کہ ان دعوؤں کا کوئی تاریخی اور آرکیالوجیکل ثبوت نہیں ہے۔

ایسے میں ‘‘یہ دیومالائی کہانیوں اور گھڑی گئی تاریخ کی جو آمیزش ہے جس کی تاریخ نوآبادیاتی سیاست اور تاریخ دانی میں ملتی ہے، اسے ایسی تحریک سے الگ رکھنا چاہئے جو انصاف اور اداراجاتی غلامی کے خلاف ہے۔’’

ولیم ڈیلے رمپل نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اب تک ان مجسموں کا عوامی مقامات پر نصب ہونے کی وجہ برطانوی عوام کا نوآبادیاتی تاریخ سے لاعلم ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘‘آپ برطانوی نظام تعلیم سے گزر جائیں، تاریخ میں اے لیول بھی کر لیں تب بھی آپ برطانوی سلطنت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہوں گے۔’’

انہوں نے کہا کہ ‘‘جرمنوں نے اپنی تاریخ سے سمجھوتہ کیا ہے۔ وہ ہولو کاسٹ کے بارے میں مکمل تاریخ اپنے سکولوں میں پڑھاتے ہیں۔’’

ان کا کہنا تھا کہ اس تحریک سے نئے امکانات جنم لے رہے ہیں۔ ان کی تجویز تھی کہ برطانیہ کو بھی امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں موجود افریقی امریکیوں کے عجائب گھر کی طرز پر ایک ایسا عجائب گھر بنانا چاہئے جو برطانوی سلطنت کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔

علی عثمان قاسمی بلیک لائیوز میٹرز تحریک کے چند مظاہرین کی جانب سے چرچل کو ان کے مجسمے پر نسل پرست لکھنے پر برطانوی عوام کی جانب سے شدید ردعمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘لوگوں تک چرچل کی سوچ، فکر اور تاریخی فیصلے نہیں پہنچائے گئے۔ اس وجہ سے لوگوں کے نزدیک ان کی تاریخی یادداشت وہ نہیں بن سکی جو ان اقوام کی بنی جنہوں نے چرچل کی وجہ سے بھوک، افلاس، بیماری اور جنگ کو بھگتا۔’’

انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ سوال بن جاتا ہے کہ تاریخ میں ان اقوام کو جگہ دی جائے جنہوں نے اس ظلم کو برداشت کیا ہے۔’’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments