ایک اور عہد تاریخ ہوا


پاکستان ٹیلی ویژن سروس لاہور اپنی آغاز سے تقریباً نو دس سال میں وہ مقبولیت نہ پا سکا۔ جس کی امید کی جا رہی تھی۔ تب ابھی اکثر کے پاس ٹی وی سیٹ بھی نہیں تھا۔ اور دیہاتوں میں ابھی ٹی وی نشریات بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی۔

1975 میں پھر نیلام گھر شروع ہوا اور پاکستانی ناظرین نے اس کو مقبولیت کے اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ پھر کچھ اس کا نصیب ایسا کھلا کہ طول و عرض میں ناظرین ٹی وی کے کسی پروگرام کو جانتے ہوں یا نہیں لیکن نیلام گھر سب نے دیکھ لیا تھا۔

ہم نے بھی دیکھ لیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے پانچ نمبر بلاک میں پہلی بار ہمسایہ کے گھر ٹی وی پر شام کو دلدار پرویز بھٹی ٹاکرا اور رات کو نیلام گھر دیکھا۔ ۔ ۔
نیلام گھر میں شرکت ایک دیرینہ خواب تھا۔ مقصد انعام و اکرام کا حصول نہ تھا۔ بس اس عہد کوا یک نظر دیکھنا تھا۔

1985 میں باقاعدہ جنرل نالج کی کتابیں خرید کے نیلام گھر میں جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور یہیں سے ہمیں مطالعہ کی عادت پڑی اور بہت کچھ پڑھنے کے باوجود آج بھی جنرل نالج کی کوئی کتاب ہاتھ لگے تو چھوڑتے نہیں۔ پھر نیلام گھر کراچی سے کیا شروع ہوا مقبولیت کے سارے ریکارڈ خود ہی توڑ ڈالے۔ ۔ ۔ نیلام گھر کا سحر اور طلسم آج بھی قائم تھا۔

1994 میں لاہور میں مقیم تھا لاہور ٹیلیویژن سنٹر میں بطور اسکرپٹ رائٹر میرا آزادانہ آنا جانا تھا۔ ایک دن نا جانے کس سوچ میں گم تیزی سے ٹی وی راہداری کے ایک موڑ مڑتے ہوئے میں اس عہد سے باقاعدہ ٹکرا گیا۔ اس کے ہاتھوں سے چند کاغذات نیچے گر گئے۔ میں بوکھلا گیا۔

اتنی بڑی شخصیت اتنا بڑا عہد نے بجائے غصہ یا ڈانٹنے کے اس نے اپنے حسین چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے ایک لفظ کہا ”سوری“ ۔

اور میں اک عالم مبہوت ہوئے گم سم پتھر کا مجسم بنا کھڑا تھا۔ پتہ نہیں کیسے میں نے زمین پر گرے کاغذ اٹھا کے اس طلسماتی عہد کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ پھر وہ تو مسکراتے ہوئے جا چکے تھا۔ اور میں وہاں کھڑا سوچتا رہ گیا کہ ہوا کیا تھا؟

نیلام گھر نے یوں تو بیشمار ریکارڈز بنائے جیسے ایشیا کا طویل ترین عرصہ چلنے والا کوئز شو وغیرہ۔
ریکارڈز کو چھوڑیں۔ آئیں ”ایک اور عہد تاریخ ہوا“ کی بات کرتے ہیں۔

طارق عزیز ایک فرد نہیں تھا۔ ایک عہد تھا۔ ایک دبستان تھا۔ زبان میں شائستگی اور تلفظ کا امام تھا۔ طارق عزیز نے اردو کو زبان سے اٹھا کہ اک تہذیب اور فیشن بنا دیا۔

نصف صدی میں ایک بھی غیر مہذب الفاظ نہیں بولا۔ اس نے شلوار قمیض کو احساس برتری عطا کی۔ اس نے پاکستانی نعرے کو ولولہ اور توقیر دیے۔ اس نے اہل علم اور ہنر و فن کو فروغ دیا۔ ان کی سرپرستی کی، ان کی توقیر و ستائش میں اپنی زندگی گزار دی۔ سخاوت کو فروغ دیا۔

آخری وقت بھی اپنی تمام جائیداد پاکستان کے عوام کو بغیر کسی سوال کے پیش کر دی۔

تو اے میرے ”ایک اور عہد تاریخ ہوا“ ہم تو آپ کو کچھ پیش نہیں کر سکتے۔ ہمارے دامن میں دینے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم تو لینے کے عادی ہیں۔ ہم دینے میں کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ کہ بعد از مرگ آپ کو کچھ دیں سکیں۔ ہاں البتہ خوبصورت لفاظی سے کچھ آپ کی ڈھارس باندھ دیتے ہیں۔

باقی ہم تو شاید آپ کے جنازہ کو کاندھا بھی نہ دیے سکیں۔ کہ کرونا نے ہمیں بدل اور بد دل کر دیا ہے۔
قبرستان تک جانا اور آپ کو لحد تک پہنچانا تھوڑا مشکل ہے۔ ”سوری“

ہاں البتہ ہم دعا کرنے کے ماہر اور دعا دینے میں کسی سے کم نہیں سو میرے پیارے ”ایک اور عہد تاریخ ہوا“

”آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔“
آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments