ایم ایل ون، پاکستان ریلویز کی انگڑائی


تین جون 2020 کو سنٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے ایم ایل ون منصوبے کے لیے 7.2 ارب ڈالرز کی سفارش کر دی۔ امید ہے کہ منصوبے پر جنوری 2021 سے کام کا آغاز ہو جائے گا اس منصوبے کے پانچ اہم مقاصد میں کراچی تا پشاور براستہ حیدر آباد، نوابشاہ روہڑی، رحیم یار خان، بہاولپور، خانیوال، ساہیوال، لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، جہلم، اٹک 1872 کلومیٹر ریلوے کے فرسودہ ٹریک کو دورویہ کرنا شامل ہے۔ جس کے باعث مسافر ٹرین کی رفتار کو 160 کلومیٹر فی گھنٹہ اور فریٹ ریل کو 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلانا ممکن ہو سکے گا۔

خوش آئند بات ہے کہ بجٹ میں اس کلیدی منصوبے کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

اس منصوبے سے ایک تقریباً مفلوج محکمے نے انگڑائی لے لی ہے جس کو بتدریج مکمل بیداری کی سطح پر لانا عصر رواں کی اہم ضرورت ہے۔

دور حاضر میں دنیا ہائیپر لوپ جیسے تیز رفتار ذرائع آمدورفت پر کام کر رہی ہے جس سے ساڑھے چھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں ممبئی سے پونے تک دنیا کا اولین ٹریک تعمیر ہونے والا ہے، سعودی عرب میں دنیا کا طویل ترین ہائیپر لوپ ٹریک بنایا جا رہا ہم اب تک ریلوے کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں کر سکے۔

پچھلے کافی برسوں سے پاکستان کی شاہراہوں پر خصوصی توجہ دی گئی جس کے باعث ملک کے طول و عرض میں کافی بہتر سڑکیں وجود میں آ چکی ہیں۔

اس نہج پر اب ریلوے کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے کا آغاز ایم ایل ون کی تکمیل کے ساتھ ہی ان علاقوں سے کرنا چاہیے جہاں ریلوے کا وجود ہی نہیں تاکہ اس علاقے میں عوام الناس کو سہولت اور روزگار کے وسیع مواقع میسر آئیں۔

کوئٹہ ڈی جی خان ریلوے لنک کی تعمیر سے بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں حمل ونقل میں آسانی ہو گی ساتھ ہی اس کم ترقی یافتہ علاقے میں روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔

کوئٹہ کراچی براستہ خضدار ریلوے لنک بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا اگر اسے گوادر سے منسلک کر دیا جائے تو یہ منصوبہ پورے پاکستان کی تقدیر بدلنے والا ہے۔

اسی طرح کوئٹہ کو براستہ ژوب پشاور اور اسلام آباد سے ملانے پر بھی کام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ مشرف دور میں کوئٹہ ژوب ریل لنک کا سروے مکمل ہو گیا تھا 332 کلومیٹر طویل اس ٹریک کا پھر نجانے کیا بنا آج بھی اس علاقے کی اپ لفٹنگ کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس ٹریک پر کام کا آغاز کیا جائے کیونکہ پہلے ژوب تک تنگ پٹری ہوا کرتی تھی بوستان سے ژوب تک ریلوے کی ملکیتی اراضی پہلے ہی سے موجود ہے۔

اس ٹریک کو ژوب سے ڈی آئی خان تقریباً 220 کلومیٹر تک وسعت دی جائے تو اتنے روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے کہ اس خطے میں بے روزگاری کا تقریباً خاتمہ ہو جائے گا۔

شیخ رشید احمد اگر ریلوے کی بحالی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا نام پاکستان ریلویز کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ورنہ یہاں بہتیرے ریلوے وزیر آئے اور گئے ہیں ان میں ایک اور نام کا اضافہ ہی عوام کا مقدر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments