سہاگ کی چوڑیاں


ارے تم نے چوڑیاں پھر اتاردیں کتنی مرتبہ بتایا ہے سہاگن کی نشانی ہوتی ہیں ہاتھوں میں کنھکتی چوڑیاں مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے تمھیں سہاگن ہونا پسند ہی نہیں۔ آپ کیوں اول فول کہنا شروع کردیتے ہیں مہوش نے بے ساختہ بابر کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ تو پھر اتاری کیوں ہیں؟ آٹا گوندھ رہی تھی سوچا خراب ہو جائے گی اور بار بار پیسے خرچ کرنا اچھا نہیں لگتا۔ میں مرجاؤں تو بچاتی رہنا تم چوڑیوں کے پیسے ابھی زندہ ہوں تو ضرورت نہیں۔ یا اللہ میرا نہیں تو عبید کا کچھ خیال کیا کریں یہ سب کہتے ہوئے۔ یہ لے پہن لی اب خوش مہوش نے ہاتھ دھوئے اور چوڑیاں کلائیوں میں سجالی۔ اب جائیے جاکر کپڑے بدلیے میں روٹی ڈال لواور عبید کو بھی کھانے کے لیے لے کر آئیے کب سے ٹی وی کے آگے بیٹھا ہوا ہے۔ اچھا ٹھیک ہے۔

٭ ٭ ٭

بابر اور مہوش کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے مگر بابر کی آج بھی خواہش ہوتی کہ جب وہ گھر آئے تو مہوش اسے تیار ملے اور جب وہ مصروفیت کا بہانہ کرتی تو اسے ایک چیز تو لازمی چاہیے ہوتی اور وہ ہوتی چوڑیاں ورنہ بابر وہ کچھ کہتا کہ مہوش اس وقت کو کوستی جب اس نے چوڑیاں اتار کررکھی ہوتی۔

٭ ٭ ٭

امی وہ مجھ آپ سے ایک اجازت لینی تھی۔ مہوش صبح ناشتہ کے بعد اپنی ساس (رابعہ بیگم) کے پاس آئی اور انھیں مدد طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ میں کہہ رہی تھی بہت دنوں سے امی کے گھر نہیں گئی آپ اجازت دیں تو چلی جاؤں۔ چلی جاؤ مگر وہ بس تمھیں پتا ہے نہ بابر گرم روٹی کھاتا ہے اور بھئی صاف بات ہے اس عمر میں نہ آٹا گوندھا جاتا ہے اور نہ گرمی میں کھڑا ہوا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے آجانا۔ جی آجاؤنگی۔

٭ ٭ ٭

یاد آ گئی ماں کی تمھیں؟ ارے رخشندہ بیٹا ایسا کرو آج ہی ہفتہ بھر کا مینیو بنا دوتمھاری مہارانی نند آئی ہے جنھیں ماں سے ملنے کا کوئی شوق نہیں مہینہ میں ایک بار چکر لگا لیا اللہ اللہ خیر سے اللہ میں تو سوچتی ہوں مجھے رخشندہ جیسی بہو نہ ملتی تو میرا کیا ہوتا؟ سچ کہتی ہوں یہی ہے جسے میرا اور اپنی ماں کا خیال ہے جتنا اپنی ماں کا کرتی ہے اتنا میرا بھی کرتی ہے اب کل ہی کی بات ہے بانو بہن کو ڈاکٹر کے ہاں جانا تھا انھیں لے کر گئی تو میرا نسخہ بھی لے کر جانا نہیں بھولی دوائیں یاد سے لے کر آئی۔ مہوش کو دیکھ سارہ بیگم جو شروع ہوئی تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

السلام علیکم آپی رخشندہ نے سلام کیا۔ رخشندہ اماں کی کسی بات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں کچن میں تمھاری مدد کرواسکوں۔ ہاں بس ایک کام کردو ایک کپ گرم چائے پلادو اور تمھیں پتا ہے مجھے تو بس میٹھا پسند ہے اگر براؤنیز بنا سکتی ہوں تو بس وہ بنا دو عبید بھی وہ شوق سے کھالے گا اور کھانے میں جو بھی بنا ہے میں وہی کھالونگی مجھے نہیں شوق دوسروں کے ہاتھ تو ڑوانے کا اپنے کام کم ہوتے ہیں جو چار گھنٹے کی آئی ہوئی کے لیے پورا دن کچن میں کھپا دو۔

یہ سب چھوڑ مہوش آج بھی تیری کلائیاں خالی ہیں سو مرتبہ کہتی ہوں چوڑیاں پہن کر رکھا کر سہاگن کی نشانی ہوتی ہیں۔ اماں آپ بھی داماد کی طرح شروع ہوگئی مجھے نہیں پسند چوڑیاں مگر ایک آپ اور ایک آپ کا داماد جہاں خالی کلائیاں دیکھی وہی شروع ہوگئے۔

٭ ٭ ٭

بہو پڑوس میں درس ہے ساتھ چل رہی ہو؟ رابعہ بیگم نے مہوش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ چلی چلتی ہوں امی۔ چلیے میں تیار ہوں مہوش نے عبایا پہنا اور آکر کھڑی ہوگئی۔ تمھاری چوڑیاں کہاں ہیں؟ جو مہوش کی خالی کلائیوں پر نظر پڑی تو فوراً سوال کیا۔ امی درس میں تو جانا ہے۔ درس میں جانا ہے تو کیا ہوا؟ اللہ بخشے تمھارے سسر مرحوم کہا کرتے تھے کلائیاں خالی نہ رکھو کرو سہاگن کی نشانی ہوتی ہیں۔ اچھا امی پہن کر آتی ہوں۔

٭ ٭ ٭

مہوش مہوش کیا ہوگیا ہے بابر کیوں آوازیں دے رہے ہیں؟ بتا ہے صبح کا وقت ہے کتنے کام ہوتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے میں اپنی چماڑن کو دیکھ کر کام پر جاؤ اس لیے بلارہا تھا۔ اب دیکھ لیا اب میں جاؤ ں؟ ایسے کیسے جاؤں ادھر تو آؤ بابر نے مہوش کو خود سے قریب کیا ماتھے پر بوسہ دیا جواس کا مخصوص اندا ز تھا اور خدا حافظ کہتا ہوا چلاگیا۔

٭ ٭ ٭

امی نو بج رہے ہیں یہ ابھی تک آئے نہیں بابر عموماً آٹھ ساڑھے آٹھ کے درمیان گھر پہنچ جاتا اور دیر سے آنا ہوتا تو فون پر اطلاع کردیتا مگر آج نہ کوئی فون آیا تھا اور نہ ہی بابر ابھی تک گھر پہنچا تھا۔ مہوش پریشان ہو رہی تھی۔ ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہومیں فون کرتی ہوں تم روٹی ڈال لو آئے گا تو بھوکا ہوگا اورپھر عبید کو بھی سونے میں دیر ہو رہی ہے۔ مہوش میرا تو دل ہول رہا ہے بابر فون نہیں اٹھا رہا رابعہ بیگم کچن میں آکر مہوش کو بتانے لگی۔

ٹرن ٹرن امی فون بج رہا ہے میں دیکھتی ہوں مہوش بھاگتی ہوئی ٹیلی فون کی طرف بڑھی۔ یہ بابر صاحب کا گھر ہے؟ جی یہی ہے۔ آپ کے لیے آفسوس ناک خبر ہے بابر کو ہارٹ آٹیک آیا ہے وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ یہ سن کر مہوش زمین پر ڈھے گئی۔

٭ ٭ ٭

مہوش پر سکتہ طاری تھا وہ ہر بات سے بے نیاز دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی جو کہتا تھا تمھیں سہاگن رہنا پسند ہی نہیں وہ واقعی اس دنیا سے جاچکا تھا۔

کوئی اس کی کلائیوں سے چوڑیاں تو اتارے ایک آواز گونجی اور ایک ہاتھ آگے آیا اور یہیں وہ لمحہ تھاجب اس کا سکتہ ٹوٹا اور وہ چیخی کوئی نہ اتارے میری چوڑیاں میں خود اتارلیتی ہوں یہ کہتے ہوئے اس نے چوڑیاں اتار کر پھینکی ہم سہاگنوں کو کب پسند ہوتی ہیں چوڑیاں ہمارے پاس کب اتنی فرصت ہوتی ہے کہ انھیں پہنیں۔ ہمارے سہاگ کہتے ہیں انھیں پہننے کا۔ مائیں کہتی ہیں اور جب کہنے والا چلاگیا تو میں کیوں پہنوں گی چوڑیاں اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کسی نے اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہمارے ہاں سہاگ کی میت پر رونے والی کو چپ کروانے کا دستور نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments