ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہو رہی ہے: سپریم کورٹ


پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکومتی وکیل سے کہا ہے کہ آپ کی ناک کے نیچے ضلعی عدلیہ میں کیا ہوتا ہے آپ کو علم نہیں۔ اس شریف آدمی کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے خود ہی اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں احتساب عدالت کے جج کی بات کر رہا ہوں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ کر رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں کی معلومات کیسے حاصل کی گئیں؟ اس حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کے پاس بڑے وسائل ہوتے ہیں۔ اس معاملے پر عدالت کو ایکشن لینا پڑا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جو احتساب کے نام پر اس ملک میں ہو رہا ہے اس پر بھی لکھیں گے۔ تمام کارروائی کے بعد وحید ڈوگر کو لاکر کھڑا کر دیا گیا۔ میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئیں؟ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ ایشو یہ ہے کب حکومت نے گوشوارے مانگے تھے؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں نے کسی سے گوشوارے نہیں منگوائے۔ اے آر یو نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انجینئرنگ کے الزامات لگتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔ ہو سکتا کہ اس مقدمے میں اس بات کی تصحیح کریں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہو رہی ہے۔ احتساب کے نام پر جو تباہی ہو رہی ہے اس پر بھی لکھیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس نئی وزارت بنانے کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم کے پاس نئی ایجنسی بنانے کا اختیار کدھر ہے؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو کوئی بھی چیز کابینہ کو بھیجنے کا اختیار ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وزیر اعظم کے اختیارات کسی قانون کے مطابق ہوں گے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ اے آر یو وفاقی حکومت کیسے ہو گئی؟ اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیسے کیا؟

فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی جج کے خلاف آنے والی درخواست یا ریفرنس پر فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ جوڈیشل کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے۔ ریفرنس سے متعلق بدنیتی ثابت ہونے پر اس بارے میں فائنڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔ وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے۔

‘جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہییں۔ آپ ایسی مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔’

فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی اپنا مائنڈ اپلائی کرکے جج کو شوکاز نوٹس کیا۔ ریفرنس کے معاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن اپلائی کرتی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل شوکاز نوٹس جاری کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے سامنے تمام فریق ایک جیسے ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے۔ اگر کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے۔ عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر اوبزرویشن دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے پاس یہ اختیار ہے۔

جج جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ وفاق کے وکیل نے اس کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ اُنھوں نے اپنے دلائل کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق مقدمے کا حوالہ کیوں دیا؟ اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلایا گیا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلایا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی شوکاز نوٹس اپنی جگہ زندہ رہے گا؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میری سمجھ کے مطابق ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس شوکاز نوٹس کا تحریری جواب دے کر سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ کسی بھی صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کی رائے کا سپریم جوڈیشل کونسل جائزہ لے سکتی ہے تاہم صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments