اختر مینگل کے مطالبات جائز ہیں



بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمارے ساتھ کیے ہوئے وعدہ پر عملدرآمد نہیں کیا۔ دو برس میں سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے 18 افراد کو چھوڑا گیا جبکہ باقی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ سردار اختر مینگل نے ماضی قریب میں بلوچستان کے بحران پر بامعنی مذاکر ات کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کی غرض سے اپنی چھ شرائط پیش کی تھی ان کے چھ شرائط یہ تھے۔

1۔ بلوچ عوام کے خلاف تمام خفیہ اور ظاہری اپریشن بند کیے جائیں۔ 2 تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے قانون کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ 3 بلوچ سیاسی جماعتوں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر اپنی سرگرمیاں بحال کرنے اور جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ 4 نواب اکبر بگٹی اور حبیب جالب بلوچ سمیت تمام بلوچ لیڈروں اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، انھیں قتل کرنے اور ان کی لاشیں مسخ کر کے پھیکنے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے۔ 5 اپنے علاقوں سے بے دخل کیے جانے والے ہزاروں بلوچوں کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ کہا جاتا ہے مینگل کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آپ کے مطالبات پر عملدرآمد ہو گا اور وہ حکومتی اتحاد کا حصہ بنے تھے۔

مجید اصغر جنھوں نے اپنی صحافتی زندگی کے چالیس سال کوئٹہ میں گزارے وہ روزنامہ جنگ کوئٹہ کے ایڈیٹر رہے وہ اپنی کتاب ”مقدمہ بلوچستان“ میں لکھتے ہیں وفاق میں برسراقتدار ہر حکومت خواہ وہ جمہوری ہو یا آمرانہ بلوچوں کو گلے لگانے کی بجائے طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا جب آزادی کے ایک سال بعد قلات پر چڑھائی کر کے خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم اور بعد میں زہری قبائل کے نواب نوروز خان کے خلاف فوجی اپریشن کیا گیا۔ سب سے بڑے فوجی اپریشن ایوب اور بھٹو دور میں ہوئے ان میں سے ایک منتخب جمہوری وزیراعظم اور دوسرا ڈکیٹر تھا۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ مقتدرہ کے بزجمہروں کے نزدیک بلوچستان کا مسئلہ صرف تین ”پاکستان دشمن“ نوابوں سرداروں کا پیدا کردہ ہے ایک عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری اور اکبر بگٹی۔ مگر بزرجمہر بھول جاتے ہیں کہ اکبر بگٹی وہ تھا جس نے قائد اعظم کا کوئٹہ پہنچنے پر خود استقبال کیا محدود ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا مرکزی وزیر کی حثییت سے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا بلوچستان کا گورنر اور وزیراعلیٰ رہا۔ 1957 ء میں وزیراعظم ملک فیروز خان نون کے ساتھ وزیر مملکت برائے داخلہ کی حیثیت سے اومان سے تحصیل گودار کی تقریباً 3 کروڑ میں خریداری کا معاہدہ کر کے پاکستان کے رقبہ میں پانچ ہزار کلو میٹر کا اضافہ کرایا۔ وفاق پاکستان کی پرزور حمایت پر بلوچوں سے اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کے طعنے سنے مگر بلوچ عوام کے حق حکمرانی اور ساحل و وسائل پر اختیار کے مطالبے سے جو قرداد پاکستان اور قائد اعظم و خان آف قلات کے درمیان ہونے والے الحاق کے معاہدے کے عین مطابق تھا دستبردار نہ ہونے پر راندہ درگاہ ٹھہرے آخر کار کوہلو کے ایک دشوار گزار پہاڑ کی غار میں شہید کر دیے گئے۔

دوسرے دشمن اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل نے 1956 ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اور پھر 1972 ء میں بلوچستان کے منتخب وزیراعلٰی کے طور پر پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ان کا فیصل آباد میں تقریر کے دوران یہ اعلان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بلوچستان سے ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کیا جائے اس کے بعد خدانخواستہ پاکستان کو نقصان پہنچا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔

تیسرے بڑے مخالف کی وجہ شہرت بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ایک فلسفی قبائلی سربراہ کی تھی 1970 ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا مگر تہتر کے آئین میں صوبوں کو مکمل خود مختاری نہ ملنے پر سیاست سے ہی کنارہ کش ہو گئے اور تادم مرگ کراچی میں رہائش پذیر رہے۔

اختر مینگل کے مطالبات ناجائز نہیں سینکڑوں بلوچ لاپتہ ہیں ہزاروں اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سارے بلوچ پاکستان سے علحیدگی نہیں چاہتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سارے بلوچ اپنی سرزمین پر حق حاکمیت اور اپنے وسائل پر مکمل اختیار چاہتے ہیں۔ یہ حق اور اختیار انھیں پاکستان کے اندر مل جائے وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کی مقتدر قوتوں نے انھیں سینے سے لگانے کی بجائے ہمیشہ دیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی جبکہ انھیں اپنا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے جائز مطالبات کو مانا جائے۔ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ کرونا کی وبا نے معیشت کو مفلوج کر دیا۔ ہمارا پڑوسی ملک جارحیت کے موڈ میں ہے۔ یہ وقت ہے اتحاد و یگانگت دکھانے کا مقتدرہ کو آگے بڑھنا ہو گا اور کھلے دل سے بلوچ رہنماء کو سینے سے لگانا ہو گا۔ آبرومندانہ مذاکرات کر کے بلوچوں کی شکایات کا ازالہ کرنا ہو گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments