عوام جاہل یا حکمران عقل کل


اس وقت پوری انسانیت ایک وبا کی لپیٹ میں ہے اور ہر ملک کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ کس طرح اس بھنور میں سے اپنی قوم کو نکالا جائے اور نقصان بھی کم سے کم ہو۔ ارض پاک پر بھی اس وقت اس موذی وبا کے سائے چھائے ہوئے ہیں جو ہر گزرتے دن گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنی کم علمی اور کم عقلی کی وجہ سے میں گراف کی بڑھتی گھٹتی لائنوں پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں۔ بہرحال کوشش کروں گا کہ ایک سطحی سوچ کا فرد ہونے کے ناتے میں اپنے ہم خیال لوگوں کی نمائندگی کر سکوں۔

لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں؟ کس نقطے کو پہلے ڈسکس کروں اور کس کو بعد میں۔ ابھی پرسوں کی ہی بات ہے کہ صوبائی وزیر صحت نے عوام کو جاہل کا لقب عطا فرمایا جس کہ بعد ہر جگہ اسی پر بحث ہونے لگ گئی۔ جیسا کہ مرشد نصرت جاوید فرماتے ہوتے ہیں کہ یہ قوم اندھی عقیدت اور نفرت کے درمیان رہتی ہے تو اس بات کو لے کر بھی عقیدت مندوں نے پورا زور لگانا شروع کر دیا کہ ہاں بھائی ہم ہیں ہی جاہل۔ میں اس وبا کہ ملک میں تشریف لانے سے لے کر اب تک اپنی عقل کل حکومت کے کچھ سنہرے اقدامات کا ذکر کروں گا اور پھر فیصلہ قارئین پر چھوڑ دوں گا۔

سب سے پہلے چین میں پھنسے پاکستانیوں میں شہادت کا جذبہ جگانے کی غرض سے احادیث کا سہارا لیا گیا اور انہیں وہاں رک کر ہی اس جنگ کو لڑنے کی ترغیب دی گئی اور پھر ایران سے زائرین کو لا کر گنجان آباد علاقوں کے وسط میں ٹھہرا دیا گیا۔ ایک دو دن بعد خبر آئی کہ بہت سے زائرین لاپتہ ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں ہر فون کال پر پیغام سنایا گیا کہ خطرناک ہے پر جان لیوا نہیں۔ یعنی سانپ ہے پر زہریلا نہیں ہے پریشان نا ہوں۔ اس کو ایک عام فلو بتایا گیا اور بس ایک سے ڈیڑھ بندے والی تسلی دی گئی وہ بھی بزرگ اور بیمار حضرات کی۔ پھر لاک ڈاؤن کرنا ہے نہیں کرنا ہے کے دائرے میں چکر لگوائے گئے اور پھر لاک ڈاؤن کر کے ہمیں ہر روز بتایا جاتا کہ لاک ڈاؤن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس وبا کے آنے کے بعد جب کہ ساری دنیا فاصلے کو ترجیح دے رہی تھی ہماری سیانی اور سمجھدار حکومت نے اے ٹی ایم میں ملنے والے بینظیر انکم سپورٹ کے فنڈز کو ہر یونین کونسل میں کیمپ لگا کر دینے کا سنہرا فیصلہ کیا اور پھر وہاں لگا دو دو سو لوگوں کا رش اور ایسے ہم نے سوشل ڈسٹنسنگ کا پرچار کھلم کھلا کیا۔ یوم علی کے جلوس کی اجازت دی گئی اور کمال ایس او پیز کی پابندی دیکھنے میں آئی۔ اس کے بعد ہفتے میں چار دن اور شام پانچ بجے تک کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی جس سے سات دن اور رات گیارہ بجے تک تقسیم ہونے والا رش ہفتے میں چار دن شام پانچ بجے تک اکٹھا کیا اور کرونا کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔ تو جناب قارئین یہ تھے کچھ عوام کے لیے بنائے گئے حفاظتی ایس او پیز ہماری بہت ہی سیانی حکمران جماعت کے۔

اب آ جائیں ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کی طرف جو کہ اس جنگ کے فرنٹ لائن سپاہی ہیں۔ پوری دنیا جہاں اپنے ان ہیروز کے پاؤں دھو کر پی رہی تھی ہم نے ان ہیروز کو دھونے کا اصولی فیصلہ کیا۔ بغیر حفاظتی کٹس کے ان بے تیغ سپاہیوں کو میدان جنگ میں دھکیل دیا گیا اور پھر جنہوں نے اپنے مطالبات کے لیے آواز اٹھانا چاہی ان کی لتر پریڈ کروائی گئی۔ گورنر صاحب اور ایک وزیر موصوفہ کی تصویر زیر بحث آئی جس میں این 95 ماسک گورنر صاحب اور وزیر موصوفہ کے علاوہ ان کی ملازمہ نے پہن رکھا تھا اور فرنٹ لائن وارئیر نیلے پیلے ماسک پہنے ہوئے تھے۔

اور تو اور امداد میں ملا سامان ہم نے امریکہ کو تحفتاً بھیج دیا، ہے نا دریا دلی ہماری۔ یعنی اگر کسی کے گھر فاقہ ہو اور اسے کوئی راشن دے کر جائے تو وہ پہلے اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرے گا یہ چار محلے دور اس سارے علاقے کے وڈے چوہدری کو گفٹ کر دے گا؟ ہیں نا پھر عقل مندی۔ یہ بھی آپ کو ارض پاکستان پر حکمرانی کرتے سیانوں میں ہی ملے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے ڈاکٹرز اپنی جان سے گئے اور بہت سے بیمار ہو کر آئسولیشن میں ہیں۔ اب یہ عید الاضحی تو ہے نہیں کہ جس میں کوئی پلمبر کوئی ترکھان دو چھریاں اٹھا لے اور لوگوں کے جانوروں کے ساتھ ان کی جیب کی بھی قربانی کرتا جائے۔ یہ خالصتاً انسانی صحت کا مسئلہ ہے جسے بہرحال ڈاکٹرز کو ہی دیکھنا ہے۔ حفاظت کرنے والے ہی اگر محفوظ نا ہوں گے تو کیسے چلے گا؟

رہی سہی کسر بجٹ میں نکل گئی جس میں اس وبا کا ایسے ہی ذکر نہیں جیسے آج کل چھت پر لگنے والے ٹی وی اینٹینوں کو لوگ بھول بیٹھے ہیں۔ اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے
امید کرتا ہوں کہ اب آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ عوام۔ جاہل ہیں یا حکمران خود کو عقل کل سمجھ بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments