کرپشن، سازشیں اور بے لاگ تجزیے


میرے پچھلے کالم میں پاکستانی معیشت کی ٹیڑھی بنیادوں پر میرے دوستوں نے نہایت نرم اور گرم تبصرے کئے ہیں- میں یہ کالم مکالمے کے طور پر لکھ رہا ہوں، منبر سے تقریر کے طور پر نہیں۔ اور آپ سب کا دلی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں- لیکن آج کی نشست میں کچھ باتیں اپنے مکالمے کے مقصد اور طریقہ کار کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی معیشت کو سمجھنے کا مقصد اسے تبدیل کرنا ہے۔ اور یہ سمجھنا ہے کہ میں ایک فرد کے طور پر کیا کر سکتا ہوں؟

ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی زندگی کے فیصلے’ اندر خانے’ ہوتے ہیں۔ دفتروں میں، ڈرائنگ روموں، اور چھانگا مانگا یا نتھیا گلی کی تفریح گاہوں میں۔ یا بقول غالب

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق

 آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

اسلئے تجزیہ کار کا کام ‘سازش’ کرنے والے ‘شیطانوں’ کو چوراہے میں لانا ہونا چاہئے۔ اور عوام کا کام ان پر کنکریاں پھینکنا- اس کے بعد سب کو گھر جا کر چین کی نیند سو جانا چاہئے۔ لیکن تبدیلی لانا اتنا سادہ اور آرام دہ عمل نہیں۔ یہ دل کا غبار نکالنے کا عمل نہیں۔ نہ ہی شیطان ڈھوںڈنےکا۔ شیطان بہت عیار ہے سب سے پہلے وہ ہماری بغل میں گھُس کر ہماری دیکھنے کی صلاحیت سلب کر لیتا ہے۔ اس لئے چور کی تلاش گھر سے شروع کرنی چاہئے۔

میں ایک مختصر کہانی اور مثال سے اپنی بات واضح کروں گا۔ ہیروں کے ایک تاجر کو کسی دوسرے شہر میں ایک نہایت قیمتی ہیرا پہنچانا تھا۔ یہ پرانے وقتوں کی بات ہے۔ بیوپاری نے سوچا ریل سے سفر کرنا محفوظ ہے۔ کیونکہ میں اکیلا نہیں ہوں گا۔ اور کسی چور، نو سرباز، اور لٹیرے نے ہاتھ اٹھایا تو دہائی دے کر لوگوں کو مدد کے لئے بلا لُوں گا۔ وہ ریلوے سٹیشن روانہ ہوا تو ایک اُچکے نے اُس کا پیچھا۔ شروع کردیا۔ ریل میں جاتے ہی تاجر میٹھی نیند سو گیا اور اُچکا رات بھر اُس کے سامان کی تلاشی لیتا رہا۔ صُبح ہوئی۔ تاجر اُٹھا- رات کو اُس نے چالاکی سے ہیرا اُچکے کے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ اور بے فکر سو گیا۔ اُس نے ہیرا نکالا اور اپنی راہ چل دیا۔ سو اپنا مال ڈھونڈنا اپنے گھر سے شروع کرنا چاہئے۔

میرے بہت سے چاہنے والوں نے اس بات پر اعتراض کیا۔ کہ میں نے ‘ہم’ کا لفظ استعمال کیا اور ‘تم’ کی نشاندہی نہیں کی۔ زرا توجہ کیجئے اگر میرے دانتوں میں درد ہو۔ تو اس کی وجہ کیسے معلوم کروں؟ اگر میں رات کو سونے سے پہلے برش نہیں کرتا یا بے دریغ میٹھا کھاتا ہوں تو اس کی ذمہ داری صرف مجھ پر ہے۔ اگر میرا دکاندار مجھے نمبر دو ٹُوتھ پیسٹ بیچتا ہے تو اسکی ذمہ داری دکاندار پر ہے۔ اگر ٹُوتھ پیسٹ مہنگی ہے اور میری قوت خرید سے باہر تو اس کی ذمہ داری مل مالک پر ہیے۔ اگر حکومت قیمتوں پر کنٹرول نہیں کرتی تو اس کے ذمہ داری حکومت پر ہے۔ اگر میری اُجرت کم ہے اور میں ٹریڈ یونین میں شامل ہو کر اپنا حق نہیں مانگتا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔

اس لئے مسئلےکا حل انگلیاں اُٹھانا نہیں۔ قدموں کی شناخت کرنا ہے۔ قدموں کے نشان ہمیں بتائیں گے کہ ہمارا مال کہاں رکھا ہوا ہے اور ہم نے اُسے کیسے نکالنا ہے۔ مال چوری ہونے کے بعد شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں

پاکستان کے مالی معاملات کو سمجھنے کے لئے بنیادی طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری سرکار بجٹ کے لئے پیسے کہاں سے لاتی ہے اور خرچ کیسے کرتی ہے۔ ساری ہیرا پھیری مال جمع اور خرچ کرنے میں ہوتی ہے۔ ہم میں سے اکثر یہ کہ کر ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں کہ حکُومت ہر کام رازداری سے کرتی ہے۔ سب اختیار بڑے لوگوں اور ‘فرشتوں’ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کُچھ نہیں۔ میں اپنے کالموں میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ ہمارے پاس رازداری کے نظام کو توڑنے اور لُوٹ مار کو روکنے کے کیا طریقے ہیں۔

نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا

ہو شیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا

بس اک نگاہ چُوکی اور مال دُوسروں کا

ہمارے ‘اندر خانوں’ تک عام آدمی اور با ضمیر سرکاری ملازمین دونوں کی رسائی ہے۔ اس لئے ٹھنڈے دل سے حکومت کے آمدنی اور خرچ کے نظام کو سمجھیں۔ میں سرکاری آمدنی اور خرچ کے نظام کے بارے میں اگلے کالم میں تفصیل سے لکھوں گا لیکن اس کالم میں بعض بنیادی مغالطوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ان کا تعلق ٹیکسوں ، قرضوں، کرپشن اور سازش سے ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضے لینے، ملک کا بجٹ بنانے اور سرکاری منصوبے، جن میں لمبے اخراجات سرکاری خزانے سے ہوتے ہیں، یہ سب کام راتوں رات نہیں ہوتے۔ انہیں مکمل ہونے میں طویل عرصہ لگتا ہے۔ ان کے بارے میں روز اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں۔ ان کاموں کی تکمیل میں بیسیوں چھوٹے بڑے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کام خفیہ طریقوں سے یا سازشوں سے نہیں ہوتے۔ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں – اور ہمارے پاس بے شمار طریقے انہیں روکنے کے ہیں۔ ہم نے کبھی ان کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

غیر ملکی قرضے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا مقروض اور سب سے زیادہ خوشحال ملک امریکہ ہے۔ قرضہ ایک مرغی کی طرح ہے۔ اگر ہم نے اپنے قرضے سے ایسی مرغی خریدی ہے جو انڈے نہیں دیتی تو قصور مرغی کا نہیں۔ مرغی خریدنے والے کا ہے.قرضہ تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے- ہم نے اسےکاٹ کر کھا لیا تو یہ ہمارا قصور ہے۔ اس طرح کے قرضوں کو نان پرفارمنگ لون کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے تمام قرضے نان پرفارمنگ لون کیوں ہیں؟ ہم ان کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے۔

اگلا سوال یہ ہے کہ ہم قرضے لیتے کیوں ہیں؟ غیر ملکی قرضے لینے کی ایک وجہ ہے کہ ہمارا کاروباری طبقہ ٹیکس میں اپنا حصہ ادا نہیں کرتا۔ باقی دنیا میں ٹیکس کی قومی آمدنی کے مقابلے میں شرح 20 فیصد ہے تو ہماری 10 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس میں بھی 70 فیصد ٹیکس غریب لوگوں کی جیب سے نکالا جاتا ہے۔ یہ سبزی، آٹے، دال، ٹرانسپورٹ پر لگنے والے ٹیکس ہیں۔ باقی ٹیکس بجلی اور ٹیلیفون کے بلوں میں زبردستی ڈیوٹیاں لگا کر وصول کئےجاتے ہیں۔ غریب لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں اُن میں چوری ممکن نہیں۔ آپ آٹے کے ٹیکس میں چوری اسی صورت میں کر سکتے ہیں اگر آپ روٹی نہ کھائیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں تیس فیصد ٹیکس رینے والوں کو صرف تیس فیصد نشستیں ملنی چاہئیں باقی غریب عوام کو ملنی چاہئیں۔ دوسرے یہ تیس فیصد دینے میں بھی انہوں نے ٹیکس چوری کی ہوتی ہے۔ ان ٹیکس چوروں کو بنانے، قانون اور انصاف کا نظام چلانے کی ذمہ داری دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ بلی کو دودھ کی رکھوالی کا کام دے دیں۔

سرکار کی آمدنی کا تیسرا ذریعہ جسے عام زبان میں رشوت کہا جاتا ہے دراصل کئی مختلف طرح کی وصولیوں پر مشتمل ہے۔ جن تمام کو خُرد بُرد کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ ان کی تاریخ، تفصیل، اور وجہ کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ لیکن یہاں پر اہم بات یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تمام رقم بھی لوگوں کی جیب سے جاتی ہے۔ لوگ یہ بھتے یا وصولیاں نہ دیں تو اُن کے کام اٹک جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب لوگ یہ بوجھ اُٹھاتے ہیں تو سرکار اُن سے یہ رقم ٹیکس کی شکل میں کیوں وصول نہیں کرتی؟ بھتے کی شکل میں کیوں وصول کرتی ہے؟ رشوت ختم کرنے کے نام پر آنے والی پاک صاف غیر منتخب ، غیر سویلین حکومتوں نے بھی یہ کام کیوں نیں کیا؟ کوئی قانون کیوں نہیں بنایا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments