بھائی کے سراپے میں بے غیرتی کیوں نہیں ہے؟


\"hashir\"

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پرچے پر غیرت کی اتنی دھول اڑی ہے کہ لفظ اب صحیح سے پہچاننے میں نہیں آتے۔ اس بہانے کئی گرامی قدر لوگوں کے حلف غیرت کی تجدید ہو گئی ہے۔ لکیریں کھینچ دی گئی ہیں۔ منطق اور اصول کی بات کرنے والوں کو لکیر کے اس پار دھکیل دیا گیا ہے کہ جس دلیل سے غیرت پر حرف آتا ہو اس پر مزید دو حرف بھیج دینے میں ہی اب سب کو عافیت نظر آتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسا ایسا باغیرت ایسی ایسی زبان اور اسلوب کے ساتھ نظر آیا ہے کہ اگلوں نے فیس بک لپیٹ دینے میں ہی بچت دیکھی ہے۔ نجانے کون سی بہنوں کے یہ محافظ اپنی غیرت انڈیلنے کے اتنے شوقین نکلے کہ حفظ مراتب تو ایک طرف، یہ بھی بھول گئے کہ عورت کی عزت کے علمبردار، عورت ہی کے بارے میں ایک عورت ہی کی وال پر جب اپنی گھٹیا ذہنیت کے مظاہرے کریں گے تو ان کے خوشنما نقابوں کے پیچھے چھپے کریہہ المنظر چہرے خود ہی عیاں ہو جائیں گے۔

کچھ نمونے پیش خدمت ہیں۔

میرے ایک فاضل پرانے دوست تحریر کرتے ہیں۔

”ایک بھائی نے کہا کہ بیہودہ سوال کا دفاع کرنے والوں میں سے دو کی بہن ہی نہیں۔ عرض کی کہ وہ اپنے کسی قریبی دوست کی بہن کے بارے میں یہ سب بتا کر اپنا ”لبرل فریضہ“ سرانجام دے لیں۔ ایک خیال یہ سامنے آیا کہ یہ لوگ یہ بھی کرلیں گے۔ عرض کی کہ ضرور ہمت کریں، کچھ ’ھم سب‘ کی انجوائمنٹ کا سامان بھی تو ہو نا۔ ذرا ’ہم سب‘ بھی تو دیکھیں نا کہ ”لنڈے بازار کی لبرل ازم“ بیچنے کے لئے یہ لوگ کس حد تک جانے کی ”اخلاقی جرات“ رکھتے ہیں“

میرے یہ بہت پیارے دوست کچھ عرصہ پہلے تعدد ازدواج کا مقدمہ لڑتے ہوئے شادی کو بھوک اور عورت کو روٹیوں سے تشبیہہ بھی دے چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ بچوں کے بعد مرد کی جنسی خواہش عورت کے مقابلے میں فروتر ہو جاتی ہے۔

ایک اور حضرت نے اپنی دانست میں یوں طنز فرمایا
”کیا کریں بہن کا تذکرہ جسمانی ساخت کی تفصیلات کےساتھ کیا جانا جدت پسندی کاتقاضا ہے اور لبرلزکی زبان پر ہی سجتا ہے۔ ملا لوگوں کی زبان پرنہیں کیونکہ وہ ٹھہرے سدا کے قدامت پسند، لبرل ازم سے دور۔ “

ایک اور صاحب گویا ہوئے
”یہ ایک فی صد لوگ چوراہے پر کھڑے ہو کر اپنی بہن کی فزیک بیان کریں۔ باقی ننانوے فی صد یہ بے غیرتی برداشت نہیں کریں گے“

ایک اور کو خیال آیا کہ
”کیا آپ اپنی بہن کی فگر بتانا پسند کریں گی تاکہ اسوہ بن سکے“

\"questions-1\"

دیگ کے چند دانے کافی ہیں۔ ابھی تو کتنے ہی جملے ایسے ہیں جن کو نقل کرنا ممکن نہیں کہ کہیں فحاشی کا پرچہ مجھ پر ہی درج نہ ہو جائے۔ ہمارے میڈیا کے کئی بڑے نام دو روز سے غیرت کا پہاڑہ پڑھ رہے ہیں۔ لنڈے کے لبرلوں کو منہ بھر کر گالیاں دی جا رہی ہیں۔ اس سب بیچ اصل مدعا کہیں کھو گیا ہے۔

ان تمام علمبرداروں کو خبر ہو کہ مذکورہ سوال پچھلے چودہ سال سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پرچے میں آ رہا ہے۔ سوال کے متن میں کبھی بھائی لکھا جاتا ہے، کبھی دوست اور کبھی بہن۔ ظاہر ہے اس دوران بہت سی بہنوں نےبھی یہ پرچہ دیا ہو گا جس میں بھائی کی ”فزیک“ اور ”لکس“ کے بارے میں استفسار ہو گا لیکن اس پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ اب سوچیے اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کا تعلق نہ غیرت سے ہے نہ اقدار سے۔ اس کا تعلق اس تعفن زدہ جنسی سوچ سے ہے جہاں عورت کا تصور صرف ایک جنسی تسکین سے وابستہ ہے۔ بھائی کی فزیک فزیک ہے لیکن بہن کی فزیک فحش ہے۔ بھائی کی خوبصورتی خوبصورتی ہے لیکن بہن کی خوبصورتی ہوس کا پہلا قرینہ ہے۔ سوال بھائی یا بہن کا نہیں ہے، سوال مرد اور عورت کا ہے۔ مرد کے لیے اس ترقی یافتہ دنیا میں اب بھی عورت ملکیت ہے، ایک جنس ہے، ایک پراڈکٹ ہے۔ کھیتی ہے۔ اس معاشرے میں آج بھی عصمت دری عورت کی ہوتی ہے، مرد کی نہیں۔ کنوار پنے کی تلاش ہونےوالی بیوی میں کی جاتی ہے، شوہر میں نہیں۔ رات باہر گزارنے سے عورت کی چنری میں داغ لگتا ہے، مرد کا شملہ نیچے نہیں ہوتا۔

\"questions-2\"

مان لیا کہ ہماری سماجیات میں گھر کی عورت کے بارے میں بات نہیں کی جاتی پر مرد کی بدمعاشی کے قصے ہنس کر سنائے جاتے ہیں پر کیا یہ رویہ درست بھی ہے۔ یہ عصمت، عفت، عزت کے دم چھلے عورت کے مقدر میں کس نے لکھے ہیں۔ مرد کے لیے یہ تصور بے معنی یا غیر اہم کیوں ہیں۔ غیرت کا ڈھول صرف مرد کے گلے میں کیوں پڑا ہے۔ عورت کی غیرت کیوں سوتی جاگتی نہیں ہے۔ ونی اور سوارہ میں بیٹے دینے کا رواج کیوں نہیں پڑ سکا۔ ماریہ اور مختاراں مائی کی جگہ کبھی محمد بوٹا اور ججا بدمعاش نے کیوں نہیں لی۔

یہ صدیوں کی مردانہ بالادستی کا جبر ہے جس نے یہ بدصورت اقدار تشکیل دی ہیں۔ عورت کو جنس زدہ اور ہوس زدہ نظروں سے دیکھنا چھوڑیے۔ اسے روٹی، مٹھائی اور چاکلیٹ سے تشبیہہ دینا بند کریں۔ ماں اور بہن کی گالیاں دینے سے پہلے اپنی ماؤں اور بہنوں کا چہرہ تصور میں لانا سیکھیے۔ بیٹی اور بہن کو اتنی آزادی دینے کی ہمت لایئے جتنی بیٹے اور بھائیوں کو دیتے ہیں۔ ہر برائی کی جڑ عورت میں ڈھونڈنا چھوڑیں۔ ہر قانون اور حد کو عورت کے پیر کی زنجیر کے ناپ سےبنانے سے پرہیز کریں۔ شاید اس بہانے آپ کی خودساختہ غیرت کا دف مارا جائے۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ جسے آپ غیرت کہتے ہیں وہ غیرت نہیں، آپ کے حق ملکیت اور استبداد کا استعارہ ہے۔ اس غیرت کو میرا دور سے ”سلام“ پہنچے، میں بے غیرت ہی بھلا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments