جامعات میں قرآن پاک کے ترجمہ کا فیصلہ


پاکستان جیسے ملک میں مذہب کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔ مذہب سے تعلق رکھنے والی درس گاہیں ہوں، درگاہیں ہوں یا خانقاہیں ;انہوں نے ہمیشہ خوب ترقی کی اور پھیلتی پھولتی رہی ہیں۔

پہلے تو ہمارے جید علمائے کرام، مذہبی سیاستدانوں اور سماجی خدائی فوجداروں نے نظریۂ پاکستان ایجاد کر کے اس میں خوب مذہب کا تڑکا لگایا۔ پاکستان کا مطلب کیا; لا الہٰ الا اللہ۔ جیسے مذہبی جذباتی نعرے ایجاد کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو باور کروایا گیا کہ بس پاکستان بننے کی دیر ہے ;اس کے بعد تمام محروم طبقوں کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ یہ وطن اسلام کی لیبارٹری بنے گا جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ یہ ملک اسلام کا قلعہ ثابت ہو گا اور اس کے جانباز سپاہی دنیا بھر سے کفر شرک اور جہالت و ضلالت کا قلع قمع کریں گے۔

قیام پاکستان کے بعد کچھ شاہینوں نے بانی پاکستان کی گیارہ اگست والی تقریر گم کر کے سادہ لوح عوام کو قرارداد مقاصد کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ ایک ہزار سال سے متحدہ ہندوستان میں رہنے والے ہندو مسلم کے درمیان عداوت، دشمنی اور نفرت کے بیج بوئے گئے۔ جو چند ہی سال میں تناور درخت بن کر لہو چھڑکتے لگے۔

جمہویۂ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا کر اس ملک کی مذہبی دستار بندی کی گئی۔ رہی سہی کسر مرد مومن مرد حق کی جنونی خاکی مذہبی انتہا پسندی نے نکال دی۔ مرد حق نے منافقت کی ردا اوڑھ کے اسلام و مذہب کے نام پر کلاشن کوف، ہیروئن کلچر اور ایم کیو ایم کی پنیری لگائی۔ نیوز کاسٹر کے سر پر تو دوپٹہ آ گیا مگر عام پاکستانیوں کے سروں پر ظلم، جبر، نا انصافی اور بربریت کی چادر ڈال دی گئی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن عزیز میں طفلانہ قسم کی کٹڑ مذہبی انتہا پسندی اور ظاہرداری و رنگ بازی کا مکروہ کلچر پروان چڑھتا گیا۔

کمزور حاکم ہمیشہ سطحی اور سستی مذہب پسندی کے رجحان کو عام کرتا ہے۔ عمران خان جو اپوزیشن میں رہ کر ایک فلاحی جمہوری مملکت کے قیام کی بات کرتے تھے وزیر اعظم بننے کے وہ بھی نادیدہ دباؤ میں آ کر ریاست مدینہ کے قیام کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے تسبیح گھماتے اور خانقاہوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے ایک خاص مسلک کو سرکاری سطح پر پروموٹ کرنا شروع کیا اور روحانیت کو سپر سائنس بنانے کا اعلان کیا۔ بنی گالا کی روحانی طاقتوں کے زیر اثر تصوف اور باطنی علوم کا پرچار کر کے ایک طرف مذہبی شدت پسندی کے رویے کو فروغ دیا اور دوسری طرف فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیلایا۔ حالانکہ سربراہ مملکت کو چاہیے کہ عوام کو اس کے طرز عمل سے مذہبی یا مسلکی رجحان کا قطعی طور پر پتہ نہ چلے۔ مذہب اور عبادات بندے اور خدا کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ تنہائی میں حکمران جس قدر چاہیے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق اپنے خالق اور روحانی مرشد سے راز و نیاز کرے مگر اسے عوام کے سامنے یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔

اب جب کہ وزیر اعظم، کابینہ اور حکومت معیشت سے لے کر صنعت و تجارت تک ہر معاملے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں تو نا اہلی کے داغ کو چھپانے کے لیے جامعات میں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھانے کا اعلان کر کے ایک بار پھر مذہب کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ جامعات نے مذہبی مولوی نہیں مختلف شعبوں کے ماہرین اور سکالرز پیدا کرنا ہوتے ہیں۔ پھر یہ مسئلہ بھی پیدا ہوگا کہ ترجمہ کس مسلک اور فرقے کا پڑھایا جائے؟

دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں بچے کو گیارہ بارہ سال کی عمر تک عالمی اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی اور معروفات و منکرات کے حوالے سے اس کے کردار کی تربیت کی جاتی ہے۔ اسے اٹھنے بیٹھنے، طرز گفتگو، انسانی ہمدردی، راستہ چلنے اور سڑک کراس کرنے وغیرہ کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ اسے گھر میں سکھایا جاتا ہے۔ جب اس تعلیم و شعور کے ساتھ وہ سکول میں داخل کیا جاتا ہے تو نصابی کتب پڑھنا شروع کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ڈھائی تین سال کے بچے کو اس کے اپنے وزن سے زیادہ بستہ دے کر سکول میں بھیج دیا جاتا ہے اور کردار و اخلاق کی تطہیر کے بجائے اسے زیادہ سے زیادہ مارکس، اعلٰی پوزیشن اور گریڈ حاصل کرنے کی دوڑ میں جوت دیاجاتا ہے۔

ہمارے ارباب حل و عقد کو چاہیے کہ وہ جامعات میں قرآن کا ترجمہ پڑھانے کے بجائے پرائمری کلاسز میں بچوں کو عربی زبان سکھانے کا اہتمام کریں تاکہ انہیں قرآن پڑھتے ہوئے مختلف النوع تراجم کی ضرورت پیش نہ آئے اور انہیں قرآن کا متن دیکھ کر کر ہی پتہ چل جائے کہ اللہ تعالٰی نے کیا کہا ہے؟ قرآن میں اللہ تعالٰی انسان سے انفرادی اور نظم اجتماعی کے احکامات کے حوالے سے مخاطب ہوتا ہے۔ طالب علم کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس مقام پر قرآن فرد اور کہاں نظم اجتماعی سے خطاب کر رہا ہے؟ ہمارے ہاں اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد اور قتال کی آیات کی من مانی تفہیم کی گئی جس کے نتیجے میں مسلح جھتوں نے جہاد و قتال کے نام پر اسلامی ملک کو لہو رنگ کر دیا۔

بصد احترام انسان کی اخلاقی تربیت میں کسی خاص مذہب یا الہامی کتب کا زیادہ دخل نہیں ہوتا بلکہ راقم کا مشاہدہ تو یہ ہے کہ مذہبی طبقے جو عبادات اور ریاضت میں زیادہ سرگرم ہوتے ہیں وہ معاملات، اخلاقیات اور رویوں میں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ دریں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کو جامعات میں قرآن کا ترجمہ سکھانے کے بجائے پرائمری کلاسوں میں ہی ان کو عربی زبان سکھائی جائے تاکہ وہ خود قرآن کو سمجھ کے پڑھ سکیں۔ جامعات میں قرآن کا ترجمہ پڑھانے کا لا محالہ یہ نتیجہ نکلے گا کہ ہم مخصوص ذہن کے حامل انتہا پسند نوجوانوں کو تیار کریں گے جو معاشرے میں شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments