بریگزٹ ریفرینڈم میں یہ کیوں پوچھا گیا کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟


یوول نوح حراری۔۔۔ مترجم: زبیرلودھی

لبرل بیانیہ انسانی آزادی کو سب سے اہم قدر کے طور پر پسند کرتا ہے۔ اس بیانیے کی دلیل یہ ہے کہ تمام تر اختیارات بالآخر فرد واحد کی آزادانہ مرضی سے حاصل ہوتے ہیں، جن کا اظہار جذبات، خواہشات اور انتخابات میں ہوتا ہے۔ لہذا یہ جمہوری انتخابات کی حمایت کرتا ہے۔ معیشت کے دائرہ کار میں لبرل ازم کا ماننا ہے کہ گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے، اسی بنا پر یہ آزادانہ تجارت کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ذاتی معاملات میں لبرل ازم لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ (جب تک دوسروں کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کرتے) اپنی بات سنیں، اپنی ذات کے ساتھ سچے رہیں اور اپنے دل کی پیروی کریں۔ کیونکہ اس کے مطابق دوسروں کی ذاتی آزادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔

کبھی کبھار مغربی سیاسی گفتگو میں ”لبرل“ کی اصطلاح انتہائی یک طرفہ انداز میں ان لوگوں کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ہم جنس پرست شادیوں، اسلحہ پر کنٹرول اور اسقاط حمل جیسے مخصوص مقاصد کی حمایت کرتے ہیں۔ البتہ پھر بھی زیادہ تر نام نہاد قدامت پرست اس وسیع لبرل دنیا کے نظارے کو گلے لگا لیتے ہیں۔ خاص طور پر ریاستہائے متحدہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کو کبھی کبھار اپنی گرما گرم بحثوں میں وقفہ لانا چاہیے، تاکہ وہ خود کو یاد دلا سکیں کہ وہ سبھی آزادانہ انتخابات، آزاد عدلیہ اور انسانی حقوق جیسے بنیادی اصولوں پر ایک جیسی رائے ہی رکھتے ہیں۔

خاص طور پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ رونالڈ ریگن جیسے دائیں بازو کے ہیرو اور مارگریٹ تھیچر نہ صرف معاشی آزادیوں بلکہ انفرادی آزادیوں کے بھی بہترین چیمپیئن تھے۔ 1987ء میں ایک مشہور انٹرویو میں تھیچر نے کہا کہ معاشرے جیسی اہم چیز کوئی اور نہیں ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ہماری زندگیوں کا معیار اس بات پر منحصر ہوگا کہ ہم میں سے ہر فرد کس قدر ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے۔

کنزرویٹو پارٹی میں تھیچر کے جانشین لیبر پارٹی سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاسی اختیار صرف ووٹر کے جذبات، انتخاب اور آزادانہ مرضی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے جب برطانیہ کو یہ فیصلہ کرنے ضرورت پڑی کہ آیا انہیں یورپی یونین چھوڑنا چاہیے تو اس وقت وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ الزبتھ دوم، کنٹری بری کے آرک بشپ، آکسفورڈ اور کیمرج کے کرتا دھرتا لوگوں کو اس مسئلہ کے حل کے لیے نہیں پوچھا، حتی کہ اس نے پارلیمنٹ ممبران سے بھی رائے نہیں لی، بلکہ ان سب کی بجائے اس نے ایک ریفرنڈم کروایا، جس میں ہر ایک برطانوی شہری سے پوچھا گیا تھا کہ ”آپ اس کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟“

آپ کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ لوگوں سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ ”آپ کا کیا خیال ہے؟“ بجائے کہ ”آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟“ لیکن یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ ریفرنڈم اور انتخابات ہمیشہ انسانی احساسات کے بارے میں ہوتے ہیں نہ کہ انسان کی عقل کے بارے میں۔ کیونکہ اگر جمہوریت عقلی فیصلہ سازی کا معاملہ ہوتا تو سبھی انسانوں کو ووٹ کے برابر حقوق دینے کی قطعی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ اس حقیقت کے وسیع ثبوت موجود ہیں کہ کچھ لوگ یقینی طور پر دوسروں (جب بات مخصوص اقتصادی اور سیاسی سوالات کی ہو) کے مقابلے میں کہیں زیادہ منطقی اور علم والے ہوتے ہیں۔

بریگزٹ ووٹ کے موقع پر نامور ماہر حیاتیات رچرڈ ڈاکنز نے احتجاج کیا کہ میرے سمیت اکثر برطانوی عوام کو ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کی اکثریت کے پاس معاشیات اور سیاسیات کا ضروری علم نہیں تھا۔ یہ سارا عمل ایسے ہی تھا کہ آپ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ملک گیر رائے شماری بلا لیں کہ کیا آئن سٹائن کو اپنا الجبرا درست مل گیا تھا، یا پھر مسافروں کو تجویز کرنے دیں کہ پائلٹ کو کس رن وے پر جہاز اتارنا چاہیے۔

تاہم، بہتر یا بد تر امر کے لیے، انتخابات اور ریفرنڈم اس بارے میں نہیں ہوتا ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں، بلکہ یہ اس بارے میں ہوتاہے کہ ہم کیا محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے جب بات احساسات کی ہوتی ہے تو آئن سٹائن اور ڈکنز کسی بھی طرح دوسروں سے بہتر نہیں ہیں۔ جمہوریت سمجھتی ہے کہ انسانی جذبات پر اسرار اور پر مغز آزاد قوت ارادی کی عکاسی کرتے ہیں اور یہی آزاد قوت ارادی اختیارات کا حتمی ذریعہ ہے، اور جبکہ کچھ لوگ باقی لوگوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں، اس لیے تمام انسان مکمل طور پر آزاد ہیں۔ آئن سٹائن اور ڈکنز کی طرح ایک ان پڑھ گھریلو ملازمہ کی بھی ایک آزاد قوت ارادی ہے۔ اس لیے الیکشن والے دن اس کے احساسات (جس کی نمائندگی اس کے ووٹ سے ہوتی ہے ) اتنا ہی شمار ہوتے ہیں، جتنے کسی اور کے ہوتے ہیں۔

احساسات صرف ووٹروں کی ہی رہنمائی نہیں کرتے ہیں بلکہ لیڈر بھی اس سے راہ پاتے ہیں۔ 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم میں یورپی یونین کو چھوڑنے کی تحریک بورس جانسن اور مائیکل گو کی سربراہی میں چلائی گئی تھی۔ ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کے بعد مائیکل گو نے پہلے جانسن کی وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے حمایت کی، مگر بالکل آخری لمحے میں مائیکل گو نے جانسن کو اس عہدے کے لیے نا اہل قرار دے کر خود انتخاب لڑنے کا اعلان کیا، مائیکل گو کے اس عمل کو (جس نے جانسن کے امکانات کو تباہ کر دیا) میکاولی طرز کا سیاسی قتل قرار دیا گیا۔

لیکن مائیکل گو نے اپنے جذبات کے تحت یوں دفاع کیا کہ ”اپنی سیاسی زندگی میں ہر قدم پر میں نے اپنے آپ سے ایک سوال پوچھا۔ ۔ ۔ کون سا کام کرنا ٹھیک ہے اور تمہارا دل کون سا کام کرنے کو کہتا ہے؟ مائیکل گو کے مطابق اسی وجہ سے اس نے بریگزٹ کے لیے سخت جدوجہد کی اور اپنے سابقہ اتحادی بورس جانسن کی پوزیشن کے لیے بولی لگائی، کیونکہ اس کے دل نے اسے ایسا کرنے کو کہا۔

دل پراس قدر انحصار لبرل جمہوریت کے لیے سب سے کمزور ترین مقام ہے۔ ایک بار جب کسی نے (چاہے بیجنگ ہو یا سان فرانسسکو میں ) انسانی دل کو ہیک کرنے اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی تکنیکی صلاحیت حاصل کرلی تو جمہوری سیاست ایک جذباتی کٹھ پتلی کی صورت میں بدل جائے گی۔

اس سیریز کے دیگر حصےیوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 9)۔جدید دنیا میں ہمارے لئے سیگرٹ نوشی جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments