کورونائی آفات اور کورونائی عمرانیات دونوں کی مناعات لاک ڈاؤن ہے


کورونائی عفریات یا آفات تو وبائی شکل میں رونما ہوتی ہیں جو نظام زندگی کے طبعی اور قدرتی عوامل کے لئے ہیجان اور بحران کا باعث بن اٹھتی ہیں۔ ایسی وبائیں اگر متعدی یعنی ایک متاثرہ زندگی سے آگے دیگر زندگیوں کی طرف پھیلنے والی ہوں تو ان کی وسعت پذیری کے تدارک کا فوری اور انتظامی حل ایک دوسرے سے دوری اور نقل و حمل پر پابندی اپنانے سے ہی نکالا جا سکتا ہے اور جو لاک ڈاؤن کے طریقے سے متعارف ہوتا ہے۔ ان کے طبی یا سائنسی علاج کا میدان متعلقہ شعبوں کی تحقیق کا مرہون منت ہو جاتا ہے۔

اسی طرح کورونائی عمرانیات کی مناعات کا اقدام بھی لاک ڈاؤن کہلاتا ہے۔ کورونائی عمرانیات کی مناعات کا لاک ڈاؤن پاکستان کا ریاستی اور عمرانی یا دستوری حق ہے لیکن ریاست یا دستور اپنے اس حق کو منانے اور منوانے سے اسی طرح بے اثر اور بے بس ہے جس طرح کورونائی عفریت کی مناعات پر مبنی لاک ڈاؤن سندھ کی حکومت وفاق سے منانے اور منوانے میں قطعی عاجز اور قاصر ہو کے رہ گئی ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر حلقوں کو بھی دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان کی کورونائی عمرانیات ایسے سیاسی اور عمرانی فساد کا نام ہے جس کی لفظوں کی زبان میں ادائیگی احقر جیسی اوقات والے کسی بے نام اور گمنام شہری کے حیطہ ادراک سے بہت پرے ایک بے پرکی اڑان کی طرح ہے۔ بھلا ہو وجاہت مسعود جیسے اہل قلم و صاحبان دانش کا جن کی علمی قلمی باتوں کا ایک سکول آف تھاٹ عام شہریوں کی رائے سازی کے لیے وہاں جھانک لینے پر کھلا ملتا رہتا ہے۔ یہ سکول آف تھاٹ اپنی معنوی گہرائیوں میں اترنے کی ہر کسی کو رعایت اور سہولت تو نہیں دیتا تاہم وہ جھڑکنے کی بجائے اس کی گہرائیوں کا پتہ پانے کی دشواری ضرور چھیڑ رکھتا ہے کہ

اول تے کسے شوق نہ ذرا کوں قصہ اج سندا
جے سن سی تے اتلا اتلا رمزاں کوئی نہ پندا

کورونائی عمرانیات کے فساد کی اتلی اتلی تفہیم جو احقر کے کچھ کچھ پلے پڑی ہے اس کی لفظی ادائیگی وجاہت مسعود صاحب سے سیکھی جائے تو اس کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ریاستی اداروں کا منصبی اختیار اور حکومتی اقتدار چونکہ ریاست کی ترجمانی کے لئے اس کی طرف سونپا گیا ہوتا ہے جو ریاست اور شہریوں کے مابین طے شدہ ’دستوری (یا عمرانی) معاہدے کے تابع ہوتا ہے‘ لیکن ’جب اقتدار (یا یہ اختیار) عوام کی جوابدہی سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو اس میں نا گزیر طور پر۔ بد عنوانی، انفرادی پاگل پن، اجتماعی اخلاق باختگی اور معیشت کی تباہی‘ جیسے طرح طرح کے فسادی عناصر پھوٹ اٹھتے ہیں (جنگ 13 جون 2020 ) جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کورونائی عمرانیات کی شکل میں اپنے فسادی اثرات پھیلانے کا موجب بنتی ہیں جو آگے ریاستی عملداری اور نظام حکومت کے عمرانی یا دستوری، سرکاری و قانونی، سیاسی و پارلیمانی، عاداتی و اخلاقی، معاشی و مالی، معاشرتی و سماجی، وفاقی و صوبائی، قومی و علاقائی جیسے ہر قسم کے بگاڑ اور قائدانہ بحران پر جا منتج ہوتے ہیں۔

ریاست کے سونپے گئے منصبی اختیار و قومی اقتدار کا غیر آئینی یا بالائے آئین و قانون استعمال غلط اور بد عنوان ہوتا ہے جو بد ون طاقت استعمال نہیں ہو سکتا۔ طاقت اس بالادستی کا نام ہے جو کسی جوابدہی یا گرفت سے بے نیاز ثابت بھی ہو اور بے نیاز ثابت ہوتی بھی رہے۔ فساد کی بنیاد کسی قسم کی شر انگیزی اور اس کی اثر انگیزی ہوتی ہے۔ ان سب قواعد کو اکٹھا جوڑ کے کورونائی عمرانیات کا یک لفظی محور بیان کیا جائے تو عمرانی کورونے کا وائرس اس وقت پھوٹتا ہے جب عمرانی یا قانونی طاقت بے اثر ہو کے رہ جائے اور اس کی جگہ ’طاقت‘ ہی عمرا نی معاہدے یا نظام عملداری کا ’قانون‘ موثر بہ عمل ثابت ہوتا رہے یا ثابت کیا جاتا رہے۔ ’طاقت کا قانون‘ اس طرح چل پڑے تو سیاست سے لے کر اس کے لیے قیادت، صحافت سے لے کر اس کی مرکزیت، عدل سے لے کر اس کی عظمت یا معیشت سے لے کر اس کی کنٹرولنگ اتھارٹی تک سب کچھ طاقت کے قانون کی اسیری قبولنے تک آ جاتا ہے۔

اوپر دی گئی سطور میں جو کچھ لکھ کر گنوایا ہے اس کی اصلیت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ضمن میں وضاحتاً چند ایسے حقائق سامنے رکھ دیے جائیں جنہیں ممنوعہ سیاست اور اس کی قیادت کو بدعنوان اور غدار وطن مشہور کرنے کے لئے اور ناپسندیدہ اہل جرات و صحافت کی بدنامی اور مخرب الاخلاقی کے لئے تو دھڑلے سے استعمال کیا جاتا ہے، یا کروا لیا جاتا ہے لیکن اسی قسم کے حقائق بعض مطلوبہ اور پسندیدہ ناموں کے بارے میں موجود ہوں تو انہیں دبا دیا جاتا ہے، یا دبوا دیا جاتا ہے۔

مثلاً پاکستان میں آج کل ایک امریکی خاتون کے ایسے انکشافات کا اچانک بہت چرچا مچایا گیا جس میں پی پی پی کی اہم شخصیات کو بد نام اور رسوا کرنے کا حربہ آزمایا گیا ہے۔ امریکی خاتون بلاگر نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پر نازیبا الزامات لگائے۔ منع کرنے کے بعد اس نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وغیرہ پر اپنے حوالے سے زیادتی منسوب کر ڈالی۔ بے نظیر بھٹو شہید پر نازیبا الزامات لگانے کے جرم پر متاثرہ پارٹی عہدیدار نے متعلقہ تحقیقاتی ایجنسی کو اندراج مقدمہ کی درخواست دی تو درخواست یہ کہہ کر کھڈے لائن لگا دی گئی کہ درخواست دہندہ کا شمار متاثرہ فریق کے طور پر پورا نہیں اترتا۔

یہ عذر عدالت نے مسترد کر کے باضابطہ کارروائی کا حکم صادر کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے درخواست پر کیوں نہ کارروائی کی؟ متاثرہ فریق ہونے نہ ہونے کا فیصلہ تو اس کے بعد عدالت میں زیر غور آنا ہی تھا۔ مس سنتھیا ڈی رچی کے پیچھے طاقت کا کوئی نہ کوئی قانون ایسا ضرور اثر انداز ہو رہا ہو گا جس کی اس وقت پی پی پی کو دبا کر استعمال کرنے کی کہیں ضرورت آ پڑی ہو گی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو احقر جیسے کسی بے وقعت شہری کی جانب سے اگر فروغ نسیم کو سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے وکیل بننے کی درخواست کی جائے تو کیا وہ ایسی درخواست پر وکیل بننے کے لئے تیار ہوجائیں گے؟ کیونکہ اپیل کا نقطہ یہ ہوگا کہ دستور پاکستان میں مسلم۔ غیر مسلم ہونے کا ذاتی فعل بھی مشروط طور پر موجود ہے کہ غیر مسلم پاکستان کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا، تو اسی طرح ناجائز اولاد کا پدرانہ ذاتی داغ رکھنے والا کوئی مسلم شخص بھی پاکستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے، نہ مدینہ ریاست کی تاریخ اسے قبول کر سکتی ہے۔ بموجب اس کے کہ یہ مدینہ ریاست کی توہین اور اس کی اسلامی سیاست کے خلاف تاریخی فساد کا دھبہ لگ کر انمٹ ہو جائے گا۔

اگر فروغ نسیم مان جاتے ہیں تو کیا وکیل اور موکل دونوں کے خلاف پی ٹی آئی کا ہر نرالا متاثرہ فریق ہونے پر مراد سعید نہیں بن اٹھے گا؟ ہاں ؛ اگر کسی طاقت کے نزدیک ایسے انکشاف سے یہ دکھانا مقصود ہو کہ پی پی پی قائدین پاکستان کے لیے سیکورٹی رسک ہیں کہ غیر ملکی خاتون کو قرب حکومت سے نوازنے کے مرتکب ہیں تو پھر اس طاقت کو گورنر جنرل غلام محمد کی پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری روتھ بورل کا نام بھی لینا چاہیے جو واشنگٹن سے لائی گئی تھیں اور جن کی خدمات کا خرچہ غلام محمد کی جیب سے ادا ہوتا تھا یا سرکاری خزانے سے؟

گورنر جنرل خود مفلوج تھے۔ میجر جنرل سکندر مرزا اور جنرل ایوب ان کی کابینہ کے اہم اور فیصلہ کن ممبر تھے۔ عمر ایوب کے سوا دوسرا ہر پاکستانی جنرل ایوب کے خلاف مادر ملت کے حق میں متاثرہ فریق ہے۔ محترمہ جناح کا وارث ہر پاکستانی ہے، عمر ایوب نہ سہی۔

اسی طرح کوئی بھی پاکستانی شہری یہ حقیقت زبان پر لے آئے کہ مشرقی پاکستان گنوایا گیا تو اقتدار کس کے پاس تھا، سیاچن گلیشیئر ہاتھ سے نکلا تو اقتدار کس کے پاس تھا، سندھ طاس معاہدہ ہوا تو اقتدار کس کے پاس تھا، امریکہ سے بھٹو کی پھانسی کا حکم آنے پر اس کی تعمیل کے لیے اقتدار کس کے پاس تھا، اپنی فوج کی نگرانی میں اڑان بھرتے ہی چیف سمیت مایہ ناز جرنیلوں کا سی ون تھرٹی بھسم ہو گیا تو اصل اقتدار کس کے پاس تھا۔

امریکہ کی افغان جہاد میں سٹریٹجک ڈیپتھ کا غبارہ پھٹا اور جہاد کا امریکی فساد بن نکلا تو ایک ٹیلیفونک کال کے آگے ڈھیر ہونے کی سبیل لگی تو اقتدار کس کے پاس تھا۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اور حتی کہ ستر سال بعد مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل ہو گئی تو اصل اقتدار کس کے پاس تھا؟ چین و بھارت جنگ 1962 میں لگی تو اقتدار اسی طاقت کے پاس تھا اور آج لداخ پر لگی ہے تو بھی اصل اقتدار اور فیصلہ کن اختیار اسی طاقت کے پاس ہے۔

یہ چند مثالیں اگر کوئی شہری آج زبان پر لے آئے تو ایسی مثالوں کی زد آج کی اسی طاقت پر نہیں پڑے گی جس کے زور پر پی پی پی کو ’مرحومہ و مغفورہ‘ بنانے کی خاطر کبھی لیگیں، کبھی آئی جے آیاں، کبھی ایم کیو ایمیں، کبھی پیٹریاٹیں اور کبھی ’چھوڑوں گا نہیں‘ جیسی بے شمار کورونائی عمرانیات گھڑی اور مڑھی گئیں۔ کیا ایسی سب باتیں سن کر آج کی طاقت کا ہر فالور ان باتوں کے خلاف متاثرہ فریق کا درجہ نہیں رکھتا؟ اگر رکھتا ہے تو ان باتوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرے۔

کہیں تو کورونائی عمرانیات کی مناعات کے لیے لاک ڈاؤن کا خطرہ مول لینا ہو گا۔ پروڈا، ایبڈو، نیب کے ہاتھوں سیاست کا میدان اگر خالی ہو گیا، تو کراچی کو صوبہ بنا کر علیحدگی کی ’نسیم الطاف‘ کو ’فروغ‘ دینے کے لیے اٹھارہویں ترمیم کی آڑ معدوم ہو جائے گی

پی پی پی کا المیہ یہ ہے کہ اس کی لیڈرشپ میڈیا پر آئے تو دوران انٹرویو اسے روک دیا جاتا ہے کیونکہ دس بارہ سال اسی لیے انہیں جیل میں بے گناہ رکھ کر صرف ٹین پرسنٹ بنوا کر مشہور کرنا مقصود تھا۔ سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے پر زرداری نے ہی امریکہ سے معذرت کروائی تھی اور تین مہینے پچیس لاکھ شہریوں کو کیمپ میں روزی رزق دے کر سوات کلیئر کرا لیا تھا۔ آج کا عمرانی دور ہر افتاد اور اپنی ناقص عملی کو سابقہ حکومت کے سر تھوپ دینے کے سہارے چل رہا ہے۔ سچی قیادت ہو تو شکست خوردہ اور ماتم کناں پاکستان کو بھی سنبھال کر ایٹمی جوہر بھر دیتا ہے جو سمایلنگ بدھا کے آگے لاک ڈاؤن بن گیا ہے۔ کورونا کے خلاف لاک ڈاؤن صرف پی پی پی ہی ڈال سکتی ہے، پی ٹی آئی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments