فیض ؔ والا لوو


” تونے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ۔“ سے محبوب اور رقیب کی فینٹسی شروع ہوئی۔
مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے کا خوب جتن کیا مگر پورٹریٹ تو درکنار، تجرید بھی میسر نہ آ پائی ؛ خاکسار کا فنی سفر، ناشپاتی اور امرود سے ذرا پہلے منقطع ہو گیا۔

صورت گری میں ناکام رہنے کا دکھ بالآخر لفظوں سے تصویریں بنانے کی حسرت ناتمام میں ڈھل گیا۔
لفظوں سے تصویریں تو کجا، معنی بھی برامد نہ ہو پائے۔

نہایت استقامت، پامردی اور ڈھٹائی کے ساتھ ناکام اور نامراد محبتوں کے انبار لگا ڈالے۔ اول تو نوبت ہی نہیں آئی۔ ہم، تم اور میرؔ، کسی زلف گرہ گیر سے بندھ بھی گئے تو وہ بیاں نصیب نہ ہوا جو رازداں کو رقیب بنا ڈالے ( بلکہ سچ پوچھیے تو رازداں بھی نصیب نہ ہوا ) ۔

اپنے زمینی اور زمانی حقائق سے تشفی نہ ہوئی تو فلمی الف لیلہ میں پناہ ڈھونڈی۔ چونکہ زندگی اور فلم، دونوں میں بلند و بانگ ڈرامے کا قائل تھا لہٰذا دیو آنند، جیتندر اور رشی کپور کا نستعلیق اور یک رخا رومانس بالکل پسند نہیں آیا۔ تاہم انہی دنوں سلمان، ایشوریا اور اجے دیوگن کی ”ہم دل دے چکے صنم“ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو جیسے بیٹھے بٹھائے لاٹری لگ گئی۔ برسوں کی تشنگی ایک ہی نظارے میں دور ہو گئی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے رقابت کے جذبے کو وہ رفعت اور بلندی عطاء کر ڈالی تھی کہ جس کے آگے ایک دھواں دار، منہ زور اور فاتح عالم قسم کی محبت بھی ہیچ دکھائی دینے لگے۔

فلم شروع ہوئی تو میں ونراج۔ دا جینٹلمین تھا جو اپنی بیوی نندنی کو اس کے گم شدہ محبوب سمیر کے حوالے کرنے بھارت سے اٹلی جا پہنچا۔ فلم ختم ہوئی تو میں سمیر عرف تیاگی تھا جس کی محبوبہ نندنی آدھی دنیا کا سفر کرنے کے بعد جونہی اسے اپنے روبرو پاتی ہے تو ضمیر کی خلش یا ازدواجی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے خاوند ونراج کی جانب لوٹ جاتی ہے۔

پہلی بار ادراک ہوا کہ سچویشن کردار سے عظیم تر ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار عقدہ کھلا کہ جیت کر ہار جانا، ہار کر ہار جانے سے کتنا مختلف جذبہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار انکشاف ہوا کہ ”عشق والا، سرخ والا، فیضؔ والا لوو“ کیوپڈ کے لویریا کے مقابلے میں کتنا مہربان اور لطیف احساس ہے۔

—O—

کئی سالوں بعد فلمی دنیا کی چکا چوند سے بہت دور، بہا الدین زکریاء یونیورسٹی کے وڈلینڈ پارک میں محبت کی ایک تکون نے جنم لیا جس کے پہلے کونے پر میں اور تیسرے کونے پر ایک عزیز دوست براجمان تھا۔

دھیمی آنچ پر پکتی ہنڈیا، دیکھتے ہی دیکھتے ابال کھا نے لگی۔

پہلے پہل زندگی نیم کا ایک تن آور درخت تھی جو مصائب کی کڑی دھوپ میں سائبان بن کر کھڑا رہا۔ پھر زندگی پائن کے خوشبودار درختوں سے بھری ایک حسین و جمیل وادی میں بدل گئی جہاں ہریل، ہدہد اور رنگ برنگے طوطوں کا بسیرا تھا۔

جب تک میں تکون کے پہلے کنارے پر ٹکا رہا، ایس۔ پی۔ بالا، پنکج ادھاس اور ہری ہرن کے مدھر گیت ہواؤں میں رس گھولتے رہے، میٹھا میٹھا درد دل کو گدگداتا رہا۔
پھر اچانک موسموں نے پلٹی کھائی اور ہواؤں نے رخ بدلا تو پائن کے سبھی درخت زمین بوس ہو گئے اور تمام پرندے کسی نامعلوم مقام کی جانب کوچ کر گئے۔

فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تھی۔
میں ونراج کی طرح نندنی کا بازو پکڑ کر اسے سمیر کے پہلو میں بٹھانا چاہتا تھا۔
میں سمیر کی مانند پیروں میں گھنگرو باندھ کر نندنی کو الوداع کہنا چاہتا تھا۔
میں شاہ حسین کی طرح اپنے محبوب اور رقیب کے وصال کی گھڑی کو دھمال کرنا چاہتا تھا۔
میں ان میں سے کچھ بھی نہیں کر پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments