شاید ہم اس سے بہتر ہیں جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں


بہتری ندارد، ترقی مفقود، بے چینی اور اضطراب کا شور ؛ یہ پاکستانی منظر نامے کا عام تاثر ہے جسے اخبار ان رپورٹوں سے سجاتے ہیں، جنہیں مسائل کے متلاشی صحافی معاشرے سے ڈھونڈ لاتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے غلطیوں کی داستانیں قومی تاریخ کا حصہ بنتے بنتے ہمارے اجتماعی ضمیر کو شرمندہ کرتی جاتی ہیں۔ ہر پڑھنے والا شہری، خبر کے لفظوں سے مستقبل کی تاریکی دیکھتا ہے اور ہر دیکھنے والا وطن کی ممکنہ بربادی کے تصور تلے دبا جاتا ہے۔ مگر اس شور و غل، اس معاملہ ہائے و ہو میں اگر کچھ سنائی نہیں دیتا تو وہ بس اڈوں، قہوہ خانوں، لائبریریوں اور کتاب گھروں میں ہوتی وہ گفتگو ہے جو ایک محب وطن دوسرے سے کرتا ہے۔

پاکستان کیا ہے؟ کیوں ہے؟ پاکستانی کون ہے؟ کس چیز کو مانتا ہے؟ مسائل کیا ہیں؟ یہ کیسے حل ہو سکتے؟ یہ اس تجسس کا عکس لئے کچھ سوال ہیں جو آج ہر دوسرا جوان اپنے کندھوں پر اٹھائے پھر رہا ہے۔ کچھ جواب پا چکے، کچھ پانے کے قریب ہیں اور کچھ سفر کی ابتدا کر رہیں ہیں۔ مگر ہر ایک گامزن راہ جستجو ہے۔ اپنی اپنی طرز پر صحیح اور غلط نتائج پر پہنچ کر، اپنے اپنے دائروں میں لوگ تغیر پذیر ہیں۔ وہ تمدن و رواج بدل رہے ہیں۔ کچھ ہو رہا ہے۔ کچھ ہے جو اس وقت کے مطلق انوکھا ہے۔ کچھ تو ہے۔

ہم تیسری مسلسل مکمل جمہوری حکومت دیکھنے والی پہلی پاکستانی نسل ہیں۔ دنیا انتہا پسندی کے جن شعلوں کی تازہ لپیٹ میں ہے، ہم اس کی انتہا جھیل کر اس سے نکل چکے ہیں۔ ہم معتدل و قابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں آزادیٔ رائے کی نئی گھنٹیاں بجائیں ہیں۔ اب فوج پر تنقید ممکن ہے، اب سیاست دان پہلے سے زیادہ جواب دہ ہیں۔ اخباروں کے قاری بڑھ گئے ہیں، سنا ہے لکھاری بڑھ گئے ہیں۔ تحقیقی مقالوں کے انبار پر باہر سے لوٹی ڈگریاں نئے ولولوں سے جمع ہو رہی ہیں۔ اب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل یہ سوچنے لگے ہیں کہ نوکری لینے والے کے بجائے دینے والا کیسے بنا جائے۔ راتوں رات نئے شہر اگ رہے ہیں۔ سانس آ رہا ہے۔ ملک چل رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ سب نا ہو۔ ہو بھی تو اس حد تک نا ہو۔ سب اتنا روشن، اتنا سنہرا نا ہو لیکن جو بھی ہے، گزشتہ سے خوب تر ہے۔

غیر ملکی سیاحوں کے نئے غول ہمارے شمال میں ڈیرہ ڈال رہے ہیں۔ جنوب وسط سے مل رہا ہے، صوبے نئی سڑکوں کے ذریعے بغل گیر ہو رہے ہیں۔ معاشی ڈھانچہ بے شک نا مکمل ہو، نظریاتی ڈھانچے کے خد و خال نظر آنے لگے ہیں۔ دو قومی نظریہ بنگال میں ڈوب چکا یا اب بھی موجود ہے؟ ہم لبرل ہیں یا مسلم؟ یا پھر لبرل اور مسلم بے وقت بھی ہوا جا سکتا ہے؟ کیا سکھائی گئی تاریخ سے تعصبات کو دھو کر حقیقت دیکھی جا سکتی ہے؟ کیا اجداد پر تنقید ممکن ہے؟ یا خود پر؟ یا اس کی ضرورت ہی نہیں اور تنقید کا کوڑا عادتاً مغرب پر پھینکا جا سکتا ہے؟ کئی نئی بحثیں ابھر رہی ہیں۔

سچ بولنے کے نئے پیمانے مقرر ہو رہے ہیں۔ اب ووٹر پہلے سے کم بیوقوف ہے۔ اب وہ احتساب و احتجاج کرنا سیکھ گیا ہے۔ گھنٹوں میں سکرینوں پر چلتی تحریکیں روز کے چھوٹے چھوٹے انقلاب برپا کرتی ہیں۔ لوگ لکھنا اور بھرم رکھنا سیکھ رہے ہیں۔ ہم راہداریوں سے ہمسائیوں کو رواداری پڑھا رہے ہیں۔ ہم سرحد کے اس پار گرنے والے پرندے چائے پلا کر واپس کر رہے ہیں۔ ہم سیانے ہو رہے ہیں۔ ہمارا مزاج دھیما مگر پختہ ہو رہا ہے۔ ہم عورتوں کی کامیابیوں کا جشن منانا سیکھ گئے ہیں۔ ہم کارآمد قانون پاس کرنا اور نظریوں کا پاس رکھنا سیکھ گئے ہیں۔ ہم نے روٹھے صوبوں کو کسی قدر منا کر پہیہ تقدیر گھما لیا ہے۔ ہم برے ہوں گے، بہت رہے ہوں گے، اب نہیں ہیں۔ ہیں بھی تو سب نہیں ہیں۔

شاید ہم بطور قوم اپنی عمر اور اپنے حصے سے بہت زیادہ جھیل چکے ہیں۔ شاید کوئی بھی نو زائیدہ مملکت جھنڈے اٹھا کر تین چار اپنی پرائی جنگیں یونہی نہیں لڑ آتی۔ شاید کوئی دیس بھی لاکھوں بنگالیوں کو اپنے نام سے آزادی دے کر کروڑوں افغانیوں کو اپنا نام نہیں دیتا۔ ہر آنے والا ہمیں لوٹتا چلا جاتا ہے پر مجال ہر کہ اقوام متحدہ کا ہمارا ناکام ریاست ہونے کا کوئی اندازہ دور سے بھی صحیح ثابت ہو۔ ہم عجیب ہیں۔ صرف ہماری فلمیں ہی وہ ہیرو پیش نہیں کرتیں جو سو گولیاں کھا بھی زندہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے، بطور ملک ہماری کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ شاید آمریت کے بھوتوں کو بھگا کر جمہوریت کی پریوں کو لانا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ شاید اپنے بھاری بھرکم بنیے پڑوسی کو اس کے گھر میں باندھ رکھنا بھی تھوڑا معمول سے ہٹ کر ہے۔ ہو سکتا ہے ہم کسی کے لیے قابل رشک ہوں۔

غزہ کی پٹی، دمشق کے کھنڈروں پر بیٹھا کوئی ٹوٹا پھوٹا سپاہی شاید ہمارے شہروں کا سوچ کر دل بہلاتا ہو۔ مطلب چار رونا چار، ہم اس ملک کو یہاں تک گھسیٹ ہی لائے۔ مشرق اور مغرب کا ایک شوربہ بنا کر کچھ جگاڑ کر ہی لیا۔ ہم لاکھ بے شرم ہوں گے، مال کھاتے، لاشیں گراتے، نظام توڑتے ہوں گے پر اس سب کے ساتھ بھی اگر دھرتی پر موجود ہیں اور ایسے کہ اگلے کچھ عرصے تک تو صاف صاف کہیں نہیں جانے والے تو ہو سکتا ہے، ہمیں عقل آ رہی ہو۔ شاید ہم یہ کر سکتے ہیں کیونکہ فی الحال بھی ہر ممکن ایڈونچر کے بعد ہم ٹھیک ہیں۔ شاید ہمیں تمام عالم سے جو بیوقوفانہ ہمدردی کا جو شوق ہے، خدا کو بھا جاتا ہے۔ شاید ہم سمجھ کم اور جوش زیادہ رکھتے ہیں پر شاید یہ اتنا برا امتزاج نہیں۔ شاید ہم بدل سکتے ہیں، شاید ہم بدل چکے ہیں۔

شاید ہم خدا کا ایک خاص فیصلہ ہیں۔ شاید اب موسم بدلنے کو ہے۔ شاید ہم سے پچھلوں نے اتنا پت جھڑ اس لیے دیکھا کہ ہم بہار دیکھ سکیں۔ شاید ہم اس سے بہتر نا ہوں جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں لیکن شاید ہم اس سے بہتر ہونے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments