ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں!


بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات اب ماضی کی نسبت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں کیوں؟ کیا وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی برائی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات آپ کے بھی ذہن ہیں آتے ہوں گئے۔ آخر انسان اتنا بے شرم کیوں ہو گیا ہے کہ اسے اپنے مقدس رشتوں کی ہی تمیز نہیں رہی۔

جی ہاں بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں سب سے زیادہ ان کے قریبی رشتے دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔ جو لوگ بچوں کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں ان کی ذہنی صحت ہی ٹھیک نہیں ہوتی ایسے لوگوں کو ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کا ذہن گندگی کا ڈھیر بن چکا ہوتا ہے۔ ان کی سوچ کسی گندے گٹر کی طرح ہوتی ہے جو بذات خود بھی بدبو اور گندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔

ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ ہماری سوچ ہی ہوتی ہے، اچھی اور مثبت سوچ ہمیں کامیاب کرتی ہے۔ گندی اور منفی سوچ ہمارے لئے تباہی لے کر آتی ہے۔

جو لوگ بچوں کے ساتھ غلط کام کرتے ہیں وہ اپنے نفس کے ہاتھوں بے بس ہوتے ہیں ان کے اوپر شیطانیت غالب آئی ہوتی ہے اچھا اور برا وہ نہیں سوچ سکتے وہ صرف وہی کرتے ہیں جو ان کا نفس ان سے کروانا چاہتا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں نے ایسے کام کر کر کے اپنے آپ کو گمراہ کیا ہوتا ہے ان پر اللہ کی بھی بس لعنت ہی ہوتی ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات ماضی میں بھی ایسے تھے جیسے آج ہیں، پہلے لوگ اپنی عزت بچانے کی خاطر عورتیں اپنا گھر بچانے کی خاطر اس بات کو چھپا لیتی تھیں، وہ بالکل غلط کرتی تھیں ایسا بھی کوئی گھر ہوتا ہے جہاں ہوس کے مارے لوگ رہتے ہوں۔ عورت اپنا گھر بچا رہی ہوتی ہے اصل میں اسے سر سے چھت چھن جانے کا خوف ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ وہ اکیلی کچھ نہیں کر سکتی وہ پیسہ نہیں کما سکتی وہ اپنے بچے نہیں پال سکتی، جس عورت نے ساری عمر گھر کے کام ہی کیے ہوں وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ مرد کے بغیر رہ سکتی ہے، وہ بے گھر ہونے کے ڈر سے چپ رہتی ہے اور ایسی ہی زندگی جیتی رہتی ہے جس میں اس کے بچوں کو سگے رشتے ہی دن رات ہوس کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ کراچی میں پیش آیا، جس میں بارہ سال کی بچی کو اس کا سوتیلا باپ اور چچا پچھلے کئی سالوں سے ہوس کا نشانہ بنا رہے تھے۔ جب بچی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کی ماں نے بتایا کہ میں نے اپنا گھر بچانے کی خاطر کئی دفعہ اس بات کو نظر انداز کیا۔ اگر آج بھی وہ ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو اس بچی کی ماں نے خاموش ہی رہنا تھا۔ عورت کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت ہی نہ کر سکے۔

مسجد، سکول، گھر، بازار، گلی محلہ، کام کرنے والی جگہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ایسے درندہ صفت لوگ نہ پائے جاتے ہوں۔ ہمیں اپنے بچوں کو خود ہی بچانا ہے ان میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ اگر وہ کچھ ایسا ویسا دیکھیں تو فوراً اپنے ماں باپ کو آگاہ کریں۔ ماں باپ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کسی کے پاس مت چھوڑیں ان کا دھیان رکھیں۔ بچے اور والدین میں اتنی تو دوستی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اپنے والدین کو بتا سکیں اور والدین ان کا یقین بھی کریں۔

ایسے بچے کی ذہنی حالت کیسی ہو گی جسے بچپن میں کسی نے جنسی ہراساں کیا ہو گا۔ اس کے اوپر بات نہ کرنا اسے چھپا کے رکھنا بچے کو ساری عمر ڈپریشن میں مبتلا رکھے گا وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھے گا جو بھی اس کے ساتھ زندگی میں برا ہو گا۔ ہمیں اپنے گھروں میں چھپے ایسے جانور نما انسانوں کو ڈھونڈنا ہو گا تا کہ وہ نہ اپنے گھر میں اور نہ باہر کسی کے پھول کو مسل سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments